وَنَجَّيْنَاهُ وَلُوطًا إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا لِلْعَالَمِينَ
اور ہم ابراہیم اور لوط کو بچا کر اس زمین کی طرف لے چلے جس میں ہم نے تمام جہان والوں کے لئے برکت رکھی تھی (١)۔
فہم القرآن : ربط کلام : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) آگ سے سلامت نکل کر ہجرت کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ﴿فَأَرَادُوْا بِہٖ کَیْدًا فَجَعَلْنَاہُمُ الْأَسْفَلِیْنَ﴾ [ الصّٰفٰت :98] ” وہ چا ہتے تھے کہ ابرا ہیم (علیہ السلام) کو مار دیں لیکن ہم نے ان کو بری طرح ذلیل کردیا۔“ ﴿وَأَرَادُوْا بِہٖ کَیْدًا فَجَعَلْنَاہُمُ الْأَخْسَرِیْنَ﴾ [ الانبیاء :70] ” انہوں نے ابرا ہیم (علیہ السلام) کو ما رناچا ہا لیکن ہم نے ان کو ناکام کردیا۔“ اہل ایمان کے لیے اس واقعہ میں بہت سے اسباق عبرت ہیں۔ کیونکہ ابراہیم (علیہ السلام) کو اس کے باپ اور دو سرے لوگوں نے نیچا دکھا نے کی کو شش کی لیکن ابراہیم (علیہ السلام) کامیاب اور دوسرے ناکام رہے۔ حتی کہ انہوں نے آگ میں جا نا قبول کرلیا۔ مگر نظریہ توحید کو نہ چھو ڑا۔ اے اہل ایماں اگر تم بھی سچی بات پر قائم رہو تو دشمن تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ نا معلوم آگ سے نکلنے کے بعد ابرا ہیم (علیہ السلام) نے کتنی مدت تک تبلیغ کا کام کیا۔ جو بات انہوں نے آگ سے نکل کر لوگوں کے سامنے رکھی قرآن کے الفاظ میں پڑھیے۔ ﴿وَقَالَ إِنَّمَا اتَّخَذْتُمْ مِنْ دُون اللّٰہِ أَوْثَانًا مَوَدَّۃَ بَیْنِکُمْ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا ثُمَّ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ یَکْفُرُ بَعْضُکُمْ بِبَعْضٍ وَیَلْعَنُ بَعْضُکُمْ بَعْضًا وَمَأْوَاکُمُ النَّارُ وَمَا لَکُمْ مِنْ نَاصِرِیْنَ﴾ [ العنکبوت :25] ” ابراہیم نے ان سے کہا تم نے دنیا کی زندگی میں اللہ کو چھوڑ کر بتوں کو آپس میں محبت کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ مگر قیامت کے دن تم ایک دوسرے کا انکار کرو گے اور ایک دوسرے پر لعنت کرو گے۔ تمہارا ٹھکانہ آگ ہوگا اور تمہارا کوئی مددگار نہیں ہوگا۔“ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہجرت کرتے ہیں : صاحب قصص القرآن نے لکھا ہے کہ آپ ( علیہ السلام) نے دوران ہجرت پہلا قیام کلدانین میں فرمایا۔ یہاں کچھ عرصہ قیام کرنے کے بعد آپ ( علیہ السلام) بمعہ حضرت سارہ اور لوط (علیہ السلام) کے حاران نامی بستی میں قیام پذیر ہوئے۔ آپ (علیہ السلام) کچھ عرصہ تک حاران نامی بستی میں ٹھہرے۔ یہاں بھی دین حنیف کی دعوت کا کام جاری رکھا۔ بالآخر آپ اپنی رفیقہ حیات اور بھتیجے کے ساتھ ارض فلسطین میں تشریف لے گئے۔ یہی وہ سر زمین ہے جسکی روحانی ومادی برکات دنیا میں مسلمہ ہیں۔ دنیا کے کسی خطے میں اتنے انبیائے کرام (علیہ السلام) نہیں ہوئے۔ آج بھی اس ارض فلسطین میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے لے کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تک اکثر انبیاء کرام (علیہ السلام) آرام فرما ہیں۔ فلسطین میں قیام : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے بھتیجے جناب لوط (علیہ السلام) کو شرق اردن میں تبلیغ کے لیے مقرر فرمایا اور فلسطین کے مغربی اطراف میں خود سکونت پذیر ہوئے۔ اس زمانے میں یہ علاقہ کنعانیوں کے زیر اقتدار تھا۔ یہاں کچھ عرصہ قیام فرمانے کے بعد آپ (علیہ السلام) مصر کی طرف چلے گئے۔ (از قصص القرآن) نازک ترین آزمائش : ہجرت کے سفر میں آپ ( علیہ السلام) کو اس آزمائش کا سامنا کرنا پڑا جس سے شاید صرف اور صرف ابراہیم (علیہ السلام) کو سابقہ پڑا۔ یعنی عزت وناموس کی آزمائش۔ بادشاہ نے آپ کی حرم پاک پر دست درازی کرنے کی ناپاک کوشش کی۔ حضرت امام بخاری نے بڑی تفصیل کے ساتھ اس الم ناک واقعہ کو صحیح بخاری میں نقل فرمایا۔ یہ ایسی آزمائش ہے کہ اس موقع پر بڑے بڑے لوگوں کے اوسان خطا ہوجایا کرتے ہیں لیکن خلیل خدا ( علیہ السلام) بڑے حوصلہ کے ساتھ اپنی رفیقہ حیات کو ایک تجویز سمجھاتے ہیں۔ چنانچہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور آپ کی رفیقہ حیات حضرت سارہ اللہ کے فضل وکرم سے سرخرو ہو کر نکلتے ہیں۔ بے حیا ظالم اور بے شرم بادشاہ اپنے آپ میں ذلیل ہوا اور ابراہیم (علیہ السلام) کو راضی کرنے کے لئے اپنی بیٹی آپ کے ہمراہ کردی۔ تفصیل کے دیکھیں۔ (بخاری : باب قول اللہ تعالیٰ ﴿وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا ﴾) مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ظالم قوم سے نجات دی۔ 2۔ ابراہیم (علیہ السلام) بیت المقدس کی طرف ہجرت کر گئے۔ 3۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ ان کی بیوی حضرت سارہ (علیہ السلام) اور ان کے بھتیجے حضرت لوط (علیہ السلام) نے ہجرت کی۔