سورة الأنبياء - آیت 60

قَالُوا سَمِعْنَا فَتًى يَذْكُرُهُمْ يُقَالُ لَهُ إِبْرَاهِيمُ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

بولے ہم نے ایک نوجوان کو ان کا تذکرہ کرتے ہوئے سنا تھا جسے ابراہیم (علیہ السلام) کہا جاتا ہے (١)۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 61 سے 65) ربط کلام : بتوں کو پاش پاش کرنے پر قوم کا رد عمل۔ قوم جب واپس پلٹی تو ان کی مسرت وشادمانی، غم اور پریشانی میں تبدیل ہوگئی۔ زبردست اضطراب اور شدید ہنگامہ برپا ہوا۔ ہنگامی حالات کا اعلان ہوا اجلاس پہ اجلاس بلائے جا رہے ہیں۔ تاکہ عوام کو اپنی کارکردگی دکھا کر فوری طور پر مطمئن کیا جائے پھر دفعتًا فیصلہ سنایا جاتا ہے۔ ﴿قَالُوا فَأْتُوْا بِہٖ عَلٰی أَعْیُنِ النَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَشْہَدُوْنَ﴾ [ الانبیاء :61] ” انھوں نے کہا کہ اس کو لوگوں کے سامنے لاؤ تاکہ لوگ دیکھ لیں۔“ ﴿فَأَقْبَلُوْا إِلَیْہِ یَزِفُّوْنَ﴾ [ الصّٰفٰت :94] ” وہ ان کی طرف دوڑتے ہوئے آئے۔“ اللہ ہی کو معلوم ہے کہ لوگ کس غیظ وغضب کے ساتھ کس طرح ابراہیم (علیہ السلام) کو پکڑ کر لائے ہوں گے۔ کتنے آوازے کسے ہوں گے اور کتنی گستاخیاں کی ہوں گی ؟ لیکن ابراہیم ہجوم مشرکین کو زمین کے ذرات سے بھی حقیر تصور فرماتے ہوئے ایسی جرأت اور مردانگی سے جواب دیتے ہیں کہ ان کی کئی کئی گز لمبی زبانیں اس طرح گنگ ہوگئیں، جیسے ان کو سانپ سونگھ گیا ہو۔ ان میں نام نہاد دانش، پڑھے لکھے اور ان پڑھ ہر قسم کے لوگ موجود ہیں لیکن کوئی بولنے کی جرأت نہیں کر پاتا۔ بولیں تو کس بنیاد پربات کریں۔ یہی تو ہمارے رب کا فرمان ہے۔ ﴿وَمَنْ یَّدْعُ مَعَ اللّٰہِ إِلَہًا آخَرَ لَا بُرْہَانَ لَہُ بِہٖ فَإِنَّمَا حِسَابُہُ عِنْدَ رَبِّہٖ إِنَّہُ لَا یُفْلِحُ الْکَافِرُوْنَ﴾ [ المؤمنون :117] ” جو اللہ کے ساتھ کسی اور کو بھی پکارتے ہیں ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ان کا حساب رب کے ذمہ ہے۔ یقین جانیے کافر کبھی کامیاب نہیں ہوتے۔“ جرگہ ابراہیم (علیہ السلام) سے سوال کرتا ہے : ابراہیم (علیہ السلام) کو جرگے کے سامنے پیش کیا گیا تو سرداران شرک وبدعت بڑے طمطراق اور رعب ودبدبہ کے ساتھ لال پیلے ہو کر پوچھتے ہیں۔ ﴿قَالُوْا أَأَنْتَ فَعَلْتَ ہٰذَا بِاٰ لِہَتِنَا یَا إِبْرَاہِیْمُ﴾[ الأنبیاء :62] ” اے ابراہیم آیا کہ تو نے ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ حرکت کی ہے۔“ جواب : ﴿قَالَ بَلْ فَعَلَہُ کَبِیْرُہُمْ ہَذَا فَاسْأَلُوْہُمْ إِنْ کَانُوْا یَنْطِقُوْنَ﴾ [ الانبیاء :63] ” فرمانے لگے بلکہ ان کے بڑے نے یہ کاروائی کی ہوگی۔ پوچھ لیجئے ! اگر یہ بات کرسکتے ہیں۔“ خاموشی ہی خاموشی ہے اور ہو کا عالم۔ اکڑی ہوئی گردنیں جھک گئیں اپنے گریبانوں میں جھانکنے لگے۔ ﴿فَرَجَعُوْا إِلٰی أَنْفُسِہِمْ فَقَالُوْا إِنَّکُمْ أَنْتُمُ الظَّالِمُوْنَ ثُمَّ نُکِسُوْا عَلٰی رُءُ وسِہِمْ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا ہٰؤُلَاءِ یَنْطِقُوْنَ﴾ [ الانبیاء : 64، 65] ” یہ سن کر وہ لوگ اپنے ضمیر کی طرف پلٹے اور اپنے دل میں کہنے لگے واقعی ہی تم خود ظالم ہو۔ مگر پھر گردنیں جھکا کر کہنے لگے ابراہیم تو جانتا ہے ! یہ تو بات نہیں کرسکتے۔“ مسائل: 1۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے قوم کو سوچنے پر مجبور کردیا۔ 2۔ قوم نے بالآخر یہ اقرار کیا کہ ہمارے معبود بات نہیں کرسکتے۔ تفسیر بالقرآن: معبودان باطل کی بے حیثیتی : 1۔ جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ تمھارے جیسے انسان ہیں اگر وہ کچھ نفع و نقصان کے مالک ہیں تو انھیں پکار کر دیکھ لو۔ کیا ان کے پاس چلنے کو پاؤں، پکڑنے کو ہاتھ، دیکھنے کو آنکھیں اور سننے کو کان ہیں۔ اپنے معبودوں کو بلالو پھر اپنی تدبیر کرلو اور مجھے ڈھیل نہ دو۔ (الاعراف :195) 2۔ جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتے اگر مکھی کچھ چھین کرلے جائے تو واپس نہیں لے سکتے۔ ( الحج :73) 3۔ فرما دیجیے ! جن کو تم اللہ کے سوا بااختیار تصور کرتے ہو وہ تم سے تکلیف دور نہیں کرسکتے۔ (بنی اسرائیل :56) 4۔ جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ کچھ پیدا نہیں کرسکتے بلکہ وہ خود مخلوق ہیں مردہ ہیں زندہ نہیں انھیں تو وہ اتنا جانتے بھی نہیں کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے۔ (النحل : 20، 21) 5۔ معبودان باطل اپنی جانوں کے نفع ونقصان کے مالک نہیں۔ (الفرقان :3) 6۔ کیا تم ایسے لوگوں کو معبود مانتے ہو جو نفع ونقصان کے مالک نہیں۔ (الرعد :16) 7۔ بلاؤ اپنے معبودوں کو اگر تم سچے ہو۔ (البقرۃ:23) 8۔ اس دن ان سے کہا جائے گا بلاؤ اپنے معبودان باطل کو، وہ بلائیں گے تو انھیں جواب نہیں ملے گا۔ (القصص :64) 9۔ فرما دیجیے جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو مجھے دکھاؤ انہوں نے کون سی چیز پیدا کی ہے۔ (الاحقاف :4)