سورة البقرة - آیت 245

مَّن ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةً ۚ وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْسُطُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

ایسا بھی کوئی ہے جو اللہ تعالیٰ کو اچھا قرض (١) دے پس اللہ تعالیٰ اسے بہت بڑھا چڑھا کر عطا فرمائے گا اللہ ہی تنگی اور کشادگی کرتا ہے اور تم سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔

تفسیرفہم قرآن - میاں محمد جمیل

فہم القرآن : ربط کلام : جہاد میں مال کی بڑی اہمیت ہے لہٰذا دفاعی فنڈ میں حصہ لینا اللہ تعالیٰ کو قرض دینے کے برابر ہے۔ جہاد کے لیے مجاہد کی جسمانی جدوجہد کے ساتھ جو اہم ترین چیز ہے وہ مال ہے۔ جہاد میں مال اور جان دونوں لازم وملزوم ہیں۔ دشمنوں کے مقابلے میں نہتا مجاہد کب تک لڑ سکتا ہے؟ اس لیے اسلحہ اس کی پہلی اور بنیادی ضرورت ہے۔ اسلحہ مال کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا۔ اس کے ساتھ ہی مجاہد کے لیے فوجی لباس، طعام، سواری یہاں تک کہ اس کے بال بچوں کے اخراجات کی بھی ضرورت ہے۔ ان ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مال ناگزیر ہے اس لیے قرآن مجید میں اکثر مقامات پر جہاد بالنفس سے پہلے جہاد بالمال کا حکم ہوا ہے۔ یہ مال بظاہر تو مجاہد کی ضروریات پر خرچ ہوتا ہے لیکن حقیقتاً یہ اللہ تعالیٰ کو قرض دینے کے مترادف ہے کیونکہ مجاہد کو اللہ ہی کے لیے جہاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس بنا پر اللہ تعالیٰ نے جہاد فی سبیل اللہ پر خرچ کرنے کو اپنی ذات عالی کو قرض دینا قرار دیا ہے۔ لیکن جس طرح جہاد محض فی سبیل اللہ ہونا چاہیے اس طرح قرض بھی کسی اور غرض کی بجائے اللہ ہی کی رضا کے لیے دینا چاہیے۔ یہی قرض حسنہ کا معنٰی ہے کہ جس کے دینے میں کوئی ذاتی غرض نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم کا ذرا تصور کیجیے کہ جو کچھ اس نے بندوں کو عطا کیا ہے وہ اسی کی مہربانی ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ اپنا عطا کیا ہوا مال اپنے بندوں سے قرض کے طور پر حاصل کرتا ہے اس شرط کے ساتھ کہ تم جس ذات کریم کو قرض دے رہے ہو وہ تمہیں کئی گنا اضافے کے ساتھ واپس لوٹائے گی۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے مال دیتے ہوئے کمی کا خوف محسوس نہ کرو۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو تمہارے مال کو کسی اور طریقے سے کم کرسکتا ہے۔ زمیندار ہے تو فصل تباہ ہونے کی شکل میں، دکاندار ہے تو خسارے کی صورت میں، تنخواہ دارہے تو بیماری اور حادثے کی شکل میں‘ تاجر ہے تو نقصان کی صورت میں مال میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔ اس طرح کسی بھی حادثے کے ذریعے مال کم ہوسکتا ہے۔ گویا کہ اللہ تعالیٰ چاہے تو اس کے لیے کمی کرنا کوئی مشکل نہیں وہ بڑھانے اور کم کرنے پر پوری طرح قادر ہے۔ طبع انسانی میں یہ بات ہمیشہ موجود رہتی ہے کہ اسے آنے والے کل کے لیے کچھ جمع کرنا چا ہے کیونکہ آج وہ صحت مند اور صاحب روز گار ہے۔ نہ معلوم آ نے والے وقت میں اس کے ساتھ کیا حا دثہ پیش آ جائے۔ اس فکر کی بنا پر ہر آ دمی کچھ نہ کچھ بچا کر رکھنے کا عا دی ہوتا ہے تاکہ کل خود اور اس کے اہل وعیال اس مال سے مستفید ہو سکیں۔ اس طرح کی انشور نس کے لیے دنیا میں بے شمار ناجائز سکیمیں جاری ہیں۔ مسلمان کا جب یہ عقیدہ ہے کہ یہ دنیا عا رضی ہے اور موت کے بعد لا محدود زندگی کا آغاز ہونے والا ہے اور اس کا انحصار اعمال کے نتا ئج پر ہوگا تو صحیح فہم و فراست کا تقاضا ہے کہ آدمی اس جہان کے لیے ضرور اہتمام کرے جس کی کوئی انتہا نہیں۔ اسی انشورنس کی بنیاد پر ہی اسے آخرت کی مراعات میسر ہوں گی گویا کہ صدقہ وخیرات آدمی کے لیے الٰہی انشورنس کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس انشورنس کی ضمانت اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی ہے۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () مَنْ تَصَدَّقَ بِعَدْلِ تَمْرَۃٍمِنْ کَسْبٍ طَیِّبٍ وَلَا یَقْبَلُ اللّٰہُ إِلَّا الطَّیِّبَ وَإِنَّ اللّٰہَ یَتَقَبَّلُھَا بَیَمِیْنِہٖ ثُمَّ یُرَبِّیْھَا لِصَاحِبِہٖ کَمَا یُرَبِّیْ أَحَدُکُمْ فَلُوَّہٗ حَتّٰی تَکُوْنَ مِثْلَ الْجَبَلِ ) [ رواہ البخاری : کتاب الزکاۃ، باب الصدقۃ من کسب طیب] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتی ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : جس نے پاکیزہ کمائی سے ایک کھجور کے برابر بھی صدقہ کیا اور اللہ تعالیٰ صرف پاکیزہ چیز ہی قبول فرماتے ہیں۔ بے شک اللہ تعالیٰ اسے اپنے دائیں ہاتھ میں لیتے ہیں پھر اس کو صدقہ کرنے والے کے لیے بڑھاتے رہتے ہیں جس طرح تم میں سے کوئی اپنے بچھٹرے کی پرورش کرتا ہے یہاں تک کہ آدمی کا کیا ہوا صدقہ پہاڑ کی مانند ہوجاتا ہے۔“ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے صدقہ کرنا اللہ تعالیٰ کو قرض دینے کے مترادف ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ رزق کم اور زیادہ کرنے والا ہے۔ 3۔ ہر کسی نے اللہ کے حضور پیش ہونا ہے۔ تفسیربالقرآن : بہترین قرض حسنہ : 1۔ اللہ کو قرض حسنہ دینے کا حکم۔ (المزمل :20) 2۔ اللہ اسے بڑھا کر واپس کرے گا۔ (الحدید :11) 3۔ اللہ اسے سات سو گناہ سے بھی زیادہ بڑھائے گا۔ (البقرہ :261) 4۔ صدقہ صرف اللہ کی رضا کے لیے دینا چاہیے۔ (البقرۃ:265)