سورة الأنبياء - آیت 27

لَا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ وَهُم بِأَمْرِهِ يَعْمَلُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

کسی بات میں اللہ پر پیش دستی نہیں کرتے بلکہ اس کے فرمان پر کار بند ہیں (١)۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 27 سے 29) ربط کلام : عباد مکرمون کی عاجزی کی انتہا ملائکہ، انبیاء (علیہ السلام) اور اولیاء اللہ کے اس قدر عاجز بندے اور غلام ہیں کہ ” اللہ“ کے کسی حکم سے آگے بڑھنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ عَبَدٌکی جمع ” عِبَادٌ“ ہے اور اہل لغت نے اس کا معنی بندہ اور غلام لکھا ہے۔ ظاہر ہے غلام کتنا ہی قابل صد احترام کیوں نہ ہو۔ وہ اپنے آقا کا بندہ اور اس کے سامنے عاجز ہو کر ہی زندگی بسر کرتا ہے۔ اس لیے ملائکہ ہوں یا انبیاء (علیہ السلام) اور اولیاء وہ سب کے سب اپنے رب کے غلام ہیں۔ وہ اپنے عظیم بے مثال آقا جو صرف ان کا ہی نہیں بلکہ پوری کائنات کا آقا، خالق، رازق اور مالک ہے۔ وہی ہمہ صفت موصوف اور تمام اختیارات کا مالک اور معبود برحق ہے، اس کے کسی حکم سے آگے بڑھنے کی ملائکہ اور انبیائے کرام (علیہ السلام) جرأت نہیں کرسکتے تھے۔ یہاں ” عباد“ سے مراد ملائکہ ہیں۔ جن کے بارے میں یہ ارشاد ہے کہ ملائکہ اپنے رب کے سامنے اپنی مرضی سے آگے بڑھ کر بول نہیں سکتے اور ہر حال میں اس کے حکم پر عمل پیرا رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے ماضی، حال اور مستقبل کو پوری طرح جانتا ہے وہ اس کی ہیبت سے لرزاں و ترساں رہتے ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کی منشا کے بغیر کسی کی اس کے حضور سفارش نہیں کرسکتے۔ اگر ان میں سے کوئی اِلٰہ ہونے کا دعویٰ کرے تو اسے ” اللہ“ جہنم میں جھونک دے گا کیونکہ اس کا فرمان ہے کہ میں ظالموں کو ایسی ہی سزا دیا کرتا ہوں۔ اس فرمان سے یہ حقیقت عیاں ہے کہ ملائکہ میں بھی یہ جرأت اور ہمت نہیں کہ وہ معبود ہونے اور حاجت روا، مشکل کشا ہونے کا دعویٰ کریں۔ بالفرض ان میں سے کوئی بھی یہ دعویٰ کرے تو وہ جہنم میں جائے گا۔ ملائکہ کے حوالے سے یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ لوگو! تم انبیاء کو اللہ تعالیٰ کے مقرب بندے سمجھ کر انہیں مشکل کشا، حاجت روا اور سجدہ کے لائق سمجھ لیتے ہو غور کرو ! یہ تو اپنے رب کے بندے تھے۔ اپنا اپنا وقت گزار کر اللہ کے حضور پہنچ چکے۔ یہی حال اولیاء کا ہے۔ ان کے مقابلے میں ملائکہ وہ مخلوق ہیں جو گناہ کے تصور سے پاک اور ہر وقت اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر رہتے ہیں۔ انھیں بھی جرأت نہیں کہ حاجت روا، مشکل کشا یعنی کسی کا معبود بننے کی کوشش کریں۔ یہ بات ناممکنات میں سے ہے بافرض محال اگر ان میں سے کوئی ایسی حرکت کرے گا تو وہ بھی جہنم سے نہیں بچ سکتا۔ ان کے مقابلے میں خاکی مخلوق کی کیا مجال ہے ؟ کہ وہ شرک کرے اور جہنم سے بچ سکے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ یَبْلُغُ بِہِ النَّبِیَّ () قَالَ إِذَا قَضَی اللَّہُ الأَمْرَ فِی السَّمَاءِ ضَرَبَتِ الْمَلاَئِکَۃُ بِأَجْنِحَتِہَا خُضْعَانًا لِقَوْلِہِ کَالسِّلْسِلَۃِ عَلَی صَفْوَانٍ قَالَ عَلِیٌّ وَقَالَ غَیْرُہُ صَفْوَانٍ یَنْفُذُہُمْ ذَلِکَ فَإِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِہِمْ قَالُوا ماذَا قَالَ رَبُّکُمْ، قَالُوا لِلَّذِی قَالَ الْحَقَّ وَہْوَ الْعَلِیُّ الْکَبِیرُ) [ رواہ البخاری : باب قَوْلِہِ ﴿إِلاَّ مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَأَتْبَعَہُ شِہَابٌ مُبِینٌ﴾ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (ﷺ) نے فرمایا‘ اللہ تعالیٰ جب آسمان پر کوئی فیصلہ صادر فرماتا ہے تو اللہ کے فرمان کے جلال کی وجہ سے فرشتوں کے پروں میں آواز پیدا ہوتی ہے جیسے صاف پتھر پر لوہے کی زنجیر کھنچنے سے آواز پیدا ہوتی ہے۔ جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دورہوجاتی ہے تو وہ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں‘ تمہارے پروردگار نے کیا فرمایا؟ اوپر والے ملائکہ اللہ کے ارشاد کا بیان کرتے اور اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہتے ہیں یہ ہے اللہ کا ارشاد جو بلند ہے اور بڑا ہے۔ مسائل: 1۔ ملائکہ بھی اللہ تعالیٰ کے حکم سے تجاوز نہیں کرتے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ سب کے ماضی، حال اور مستقبل کو جانتا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر کوئی اس کے حضور سفارش نہیں کرسکتا۔ 4۔ ملائکہ میں سے کوئی الٰہ ہونے کا دعویٰ کرے تو اللہ تعالیٰ اسے بھی جہنم میں جھونک دے گا۔ تفسیر بالقرآن: جس نے ” اللہ“ کے ساتھ شریک بنایا اسے عذاب ہوگا : 1۔ اللہ تعالیٰ جس انسان کو نبوت، کتاب اور حکومت دے اسے بھی حق نہیں پہنچتا کہ وہ لوگوں کو اپنا بندہ بنائے۔ ( آل عمران :79) 2۔ جس نے شرک کیا اس پر جنت حرام ہے۔ ( المائدہ :72) 3۔ اگر آپ بھی شرک کرتے تو آپ کے اعمال غارت کر دئیے جاتے۔ (الزمر :65)