سورة الأنبياء - آیت 7

وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ إِلَّا رِجَالًا نُّوحِي إِلَيْهِمْ ۖ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

تجھ سے پہلے بھی جتنے پیغمبر ہم نے بھیجے سبھی مرد تھے (١) جن کی طرف ہم وحی اتارتے تھے پس تم اہل کتاب سے پوچھ لو اگر خود تمہیں علم نہ ہو (٢)

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 7 سے 8) ربط کلام : آپ (ﷺ) کے بشر ہونے کا ایک اور جواب۔ قرآن مجید نے آپ (ﷺ) اور انبیاء (علیہ السلام) کے حوالے سے کئی مقامات پر اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ آپ اور پہلے انبیاء کرام (علیہ السلام) بشر تھے۔ اور سب کے سب کھانے، پینے والے انسان تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے جسم ایسے نہیں بنائے تھے جو کھانے پینے کی حاجت سے بے نیاز ہوں اور نہ ہی وہ ہمیشہ رہنے والے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس دنیا سے انتقال کر گئے۔ کہ اگر ان لوگوں کو اس بات پر پھر بھی یقین نہیں آتا تو انھیں چاہیے کہ اہل ذکر سے پوچھ لیں کہ جتنے پیغمبر بھی آپ (ﷺ) سے پہلے مبعوث کیے گئے ہیں وہ سب کے سب انسان تھے۔ اہل ذکر سے مراد اہل علم ہیں جو شریعت کا علم رکھنے والے ہیں اور بخل و خیانت سے کام نہیں لیتے۔ اہل الذّکر کا دوسرا مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایسے علماء سے مسئلہ دریافت کیا جائے۔ جن کی دین کے بارے میں یادداشت اچھی ہو اور ” اللہ“ کے خوف سے سچی بات بتلانے والے ہوں۔ آپ (ﷺ) کا فرمان کہ میں ایک بشر ہوں : (عَنْ عَلْقَمَۃَ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّہِ صَلَّی النَّبِیُّ () قَالَ إِبْرَاہِیمُ لاَ أَدْرِی زَادَ أَوْ نَقَصَ فَلَمَّا سَلَّمَ قیلَ لَہُ یَا رَسُول اللَّہِ، أَحَدَثَ فِی الصَّلاَۃِ شَیْءٌ قَالَ وَمَا ذَاکَ قَالُوا صَلَّیْتَ کَذَا وَکَذَا فَثَنَی رِجْلَیْہِ وَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَۃَ، وَسَجَدَ سَجْدَتَیْنِ ثُمَّ سَلَّمَ، فَلَمَّا أَقْبَلَ عَلَیْنَا بِوَجْہِہِ قَالَ إِنَّہُ لَوْ حَدَثَ فِی الصَّلاَۃِ شَیْءٌ لَنَبَّأْتُکُمْ بِہِ، وَلَکِنْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُکُمْ، أَنْسَی کَمَا تَنْسَوْنَ، فَإِذَا نَسِیتُ فَذَکِّرُونِی، وَإِذَا شَکَّ أَحَدُکُمْ فِی صَلاَتِہِ فَلْیَتَحَرَّی الصَّوَابَ، فَلْیُتِمَّ عَلَیْہِ ثُمَّ یُسَلِّمْ، ثُمَّ یَسْجُدْ سَجْدَتَیْنِ) [ بخاری : باب التوجہ نحوالقبلۃ] ” حضرت علقمہ سیدنا عبداللہ (رض) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ (ﷺ) نے نماز پڑھائی تو نماز میں کچھ کمی بیشی ہوگئی جب سلام پھیرا تو لوگوں نے عرض کیا ” یا رسول اللہ (ﷺ) نماز کے متعلق کوئی نیا حکم آیا ہے؟ آپ نے فرمایا کیوں ؟ لوگوں نے کہا آپ نے اتنی رکعت پڑھی ہیں یہ سن کر آپ واپس ہوئے پھرے قبلہ کی طرف چہرہ کیا۔ سہو کے دوسجدے کیے پھر سلام پھیرا پھر ہماری طرف چہرہ کر کے فرمایا : اگر نماز کے بارے میں کوئی نیا حکم آتا تو میں ضرور تمہیں بتا دیتا۔ لیکن بات یہ ہے کہ میں بھی تمہاری طرح آدمی ہوں جیسے تم بھول جاتے ہو میں بھی بھول جاتا ہوں۔ جب میں بھول جاؤں تو مجھے یاد دلا دیا کرو اور جب تم میں سے کسی کو اپنی نماز میں شک پڑجائے تو یقین کے مطابق اپنی نماز پوری کرے پھر سلام پھیرے اور بھول کے دو سجدے کرلے۔“ ” سیدنا رافع بن خدیج (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) مدینہ تشریف لائے تو اس وقت لوگ کھجور کی پیوندکاری کرتے تھے آپ نے فرمایا : یہ کیا کرتے ہو؟ صحابہ کرام (رض) نے جواب دیا ہمارا یہی طریقہ ہے آپ نے فرمایا : اگر تم یہ کام نہ کرو تو شاید بہتر ہو۔ لوگوں نے پیوند کرنا چھوڑ دیا تو کھجوریں پھل کم لائیں۔ صحابہ (رض) نے یہ بات رسول اللہ (ﷺ) سے عرض کی تو آپ نے فرمایا : میں بھی ایک بشر ہی ہوں جب میں تمہیں تمہارے دین کے بارے میں کسی بات کا حکم دوں تو اس پر عمل کرو۔ جب میں کوئی بات اپنی رائے سے کہوں تو میں بھی آخر آدمی ہوں۔[ مسلم، کتاب الفضائل، باب وجوب امتثال] مسائل: 1۔ تمام کے تمام انبیائے کرام (علیہ السلام) انسان تھے۔ 2۔ آدمی کو معلوم نہ ہو تو اسے اہل علم سے پوچھ لینا چاہیے۔ 3۔ تمام انبیائے کرام (علیہ السلام) کھانے پینے والے انسان تھے۔ 4۔ کسی نبی کو بھی ہمیشہ کی زندگی حاصل نہ تھی۔ تفسیر بالقرآن: تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) بشر تھے : 1۔ تمام رسولوں کو ان کی قوم کے پاس انہی کی زبان میں بھیجا گیا۔ (ابراہیم :4) 2۔ انبیاء اقرار کرتے تھے کہ ہم بشر ہیں۔ (ابراہیم :11) 3۔ اللہ نے جتنے بھی رسول بھیجے وہ آدمی تھے۔ (یوسف :109) 4۔ اللہ نے آپ سے پہلے جتنے بھی نبی بھیجے وہ بشرہی تھے۔ (النحل :43) 5۔ رسول اللہ کا اعتراف کہ میں تمہاری طرح بشرہوں۔ (الکہف :110) 6۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم نے کہا نہیں ہے یہ مگر تمہارے جیسا بشر اور یہ تم پر فضیلت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ (المومنون :24)