مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِي اسْتَوْقَدَ نَارًا فَلَمَّا أَضَاءَتْ مَا حَوْلَهُ ذَهَبَ اللَّهُ بِنُورِهِمْ وَتَرَكَهُمْ فِي ظُلُمَاتٍ لَّا يُبْصِرُونَ
ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی، پس آس پاس کی چیزیں روشنی میں آئی ہی تھیں کہ اللہ ان کے نور کو لے گیا اور انہیں اندھیروں میں چھوڑ دیا، جو نہیں دیکھتے۔ (١)
فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ منافق کے کردار کی مثال اس مثال کے ذریعے اسلام اور نفاق، منافقین اور سرور گرامی {ﷺ}کے درمیان فرق بیان کیا گیا ہے۔ آپ نے دن رات کی جدوجہد سے اسلام کے چہرۂ تاباں کو ایسے پیش فرمایا جس سے کفر اور اسلام، گمراہی اور ہدایت کے درمیان اس طرح امتیاز پیدا ہوا جس طرح روشنی اور اندھیرے کے درمیان فرق ہوا کرتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود منافقوں کے لیے ان کے کفر و نفاق کی تاریکیاں اسلام کی روشن تعلیمات اور آپ {ﷺ}کی درخشاں سیرت کے درمیان حائل ہوگئیں یہ سب کچھ اس طرح ہوا جیسے ایک آدمی نے آگ جلا کر گھٹا ٹوپ راستے کو منور کردیا ہو۔ تاکہ اس راستے پر چلنے والے کو نشیب و فراز کا پتہ چل جائے۔ جونہی مسافر اس راستے پر چلنے کے لیے آمادہ ہوا تو اس کے خبث باطن کی وجہ سے اچانک راستہ خطرناک اندھیروں میں چھپ گیا۔ ذرا سوچیے اس مسافر کی کیا حالت ہوگی ؟ بالکل یہی کیفیت منافقوں کے ساتھ پیش آئی کہ نبی معظم {ﷺ}کی ذات اور آپ کی تعلیمات کو سچ جاننے کے باوجود ان کا کفرو نفاق اور دنیاوی مفاد اس طرح حائل ہواکہ اسلام کا راستہ روشن ہونے کے باوجود ان کو تاریک نظر آیا۔ اس کی وجہ ان کی منافقت اور گھناؤنا کردار تھا۔ جس بنا پر اللہ تعالیٰ نے انہیں اندھیروں میں چھوڑ دیا۔ اب صراط مستقیم کو دیکھنا اور اس پر چلنا ان کے بس کی بات نہیں کیونکہ اندھیروں میں کوئی چیز دکھائی نہیں دیا کرتی۔ یاد رہے کہ روشنی یعنی ہدایت ایک ہی ہے لیکن کفروضلالت کے اندھیرے کئی قسم کے ہوتے ہیں اس لیے اندھیرے کے لیے جمع کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ منافق کا محشر کے دن حال : قرآن مجید نے دوسرے مقام پر اس کی یوں وضاحت فرمائی ہے کہ جن لوگوں نے دنیا میں نور ہدایت سے منہ موڑ لیا۔ ان کا محشر میں اس طرح حشر ہوگا کہ ﴿یَوْمَ یَقُوْلُ الْمُنَافِقُوْنَ وَالْمُنَافِقَاتُ لِلَّذِیْنَ آَمَنُوْا انْظُرُوْنَا نَقْتَبِسْ مِنْ نُوْرِکُمْ قِیْلَ ارْجِعُوْا وَرَاءَ کُمْ فَالْتَمِسُوْا نُوْرًا فَضُرِبَ بَیْنَہُمْ بِسُورٍ لَہُ بَابٌ بَاطِنُہُ فِیْہِ الرَّحْمَۃُ وَظَاہِرُہُ مِنْ قِبَلِہِ الْعَذَابُ﴾ (الحدید :13) ” اس دن منافق مرد اور منافق عورتیں مومنوں سے کہیں گے کہ ہماری طرف دیکھو ہم بھی تمہارے نور سے روشنی حاصل کریں۔ تو ان سے کہا جائے گا کہ پیچھے کو لوٹ جاؤ اور وہاں نور تلاش کرو۔ پھر ان کے بیچ میں ایک دیوار کھڑی کردی جائے گی جس میں ایک دروازہ ہوگا اس کی اندرونی جانب تو رحمت ہے اور بیرونی جانب عذاب۔“ (عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ {رض}قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ {ﷺ}مَثَلِیْ کَمَثَلِ رَجُلٍ اسْتَوْقَدَ نَاراً فَلَمَّا اَضَآءَ تْ مَا حَوْلَھَا جَعَلَ الْفِرَاشُ وَھٰذِہِ الدَّوَآبُّ الَّتِی تَقَعُ فِی النَّارِ یَقَعْنَ فِیْھَا وَجَعَلَ یَحْجُزُھُنَّ وَیَغْلِبْنَہٗ فَیَتَقَحَّمْنَ فِیْھَا فَاَنَا اٰخِذٌ بِحُجَزِکُمْ عَنِ النَّارِ وَأَ نْتُمْ تَقَحَّمُوْنَ فِیْھَا ھٰذِہٖ رِوَایَۃُ الْبُخَارِیِّ وَلِمُسْلِمٍ نَحْوُھَا وَقَالَ فِیْ اٰخِرِھَا قَالَ فَذَالِکَ مَثَلِیْ وَمَثَلُکُمْ اَنَا اٰخِذٌ بِحُجَزِکُمْ عَنِ النَّارِ ہَلُّمَ عَنِ النَّارِ ھَلُمَّ عَنِ النَّارِ فَتَغْلِبُوْنِیْ تَقَحَّمُوْنَ فِیْھَا) (رواہ البخاری : کتاب الرقاق، رواہ مسلم : کتاب الفضائل) ” حضرت ابوہریرہ {رض}بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم {ﷺ}نے فرمایا : میری مثال آگ روشن کرنے والے شخص کی طرح ہے۔ جب آگ سے اس کا آس پاس روشن ہوگیا تو پروانے اس میں گرنے لگے۔ آگ جلانے والے نے انہیں بچانے کی سر توڑ کوشش کی لیکن وہ اس سے بے قابو ہو کر گرتے رہے۔ بس میں تمہیں آگ سے بچانے کے لیے پیچھے سے پکڑتا ہوں لیکن تم ہو کہ اس میں گرتے جا رہے ہو۔ یہ بخاری کے الفاظ ہیں اور مسلم میں اس طرح ہے کہ میری اور تمہاری مثال ایسے ہے کہ میں تمہیں پیچھے سے پکڑ کر آگ سے بچانے کی کوشش کرتے ہوئے کہہ رہا ہوں کہ میری طرف آؤ اور آگ سے بچو، لوگو! آگ کی بجائے میری طرف آؤ۔ لیکن تم مجھ سے بے قابو ہو کر آگ میں گرے جا رہے ہو۔“ مسائل: 1-اسلام ایک روشنی ہے۔ 2- نفاق اور کفر اندھیرے ہیں۔ 3- نور ایمان کے بغیر ہدایت نصیب نہیں ہوتی۔ تفسیر بالقرآن :دین ایک روشنی ہے : 1-اسلام ایک روشنی ہے۔ (الصف :7) 2۔ ایمان اور دین نور ہے۔ (التغابن :8) 3۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) روشنی کی دعوت دیتے تھے۔ (ابراہیم :5) 4۔ نبی کریم {ﷺ}کی دعوت روشنی اور نور ہے۔ (ابراہیم :1) 5۔ اللہ تعالیٰ مومنوں کو کفر کے اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے۔ (البقرۃ:257) 6۔ اللہ تعالیٰ کی ذات زمین و آسمان کانورہے (النور :35) 7- جس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیا گیا وہ اللہ تعالی کی روشنی پر ہے۔ ( الزمر: 22)