سورة البقرة - آیت 235

وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا عَرَّضْتُم بِهِ مِنْ خِطْبَةِ النِّسَاءِ أَوْ أَكْنَنتُمْ فِي أَنفُسِكُمْ ۚ عَلِمَ اللَّهُ أَنَّكُمْ سَتَذْكُرُونَهُنَّ وَلَٰكِن لَّا تُوَاعِدُوهُنَّ سِرًّا إِلَّا أَن تَقُولُوا قَوْلًا مَّعْرُوفًا ۚ وَلَا تَعْزِمُوا عُقْدَةَ النِّكَاحِ حَتَّىٰ يَبْلُغَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي أَنفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَفُورٌ حَلِيمٌ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

تم پر اس میں کوئی گناہ نہیں کہ تم اشارۃً ان عورتوں سے نکاح کی بابت کہو، یا اپنے دل میں پوشیدہ ارادہ کرو اللہ تعالیٰ کو علم ہے کہ تم ضرور ان کو یاد کرو گے، لیکن ان سے پوشیدہ وعدے نہ کرلو (١) ہاں یہ اور بات ہے کہ تم بھلی بات بولا کرو (٢) اور عقد نکاح جب تک عدت ختم نہ ہوجائے پختہ نہ کرو، جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں کی باتوں کا بھی علم رکھتا ہے تم اس سے خوف کھاتے رہا کرو اور یہ بھی جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ بخشش اور حلم والا ہے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : عورتوں کے مسائل جاری ہیں۔ بیوہ عورت اپنے خاوندکی وفات کے بعد چار مہینے دس دن کی عدت گزارے گی بشرطیکہ وہ حاملہ نہ ہو۔ حاملہ ہونے کی صورت میں اس کی عدت بچہ پیدا ہونے تک ہوگی۔ اس عدت کے دوران اس کے ساتھ نکاح کرنے کا خواہش مند شخص کسی ایسے طریقے اور انداز سے اسے اپنے ارادے سے آگاہ نہیں کرسکتا جس سے نکاح کرنے کا کھلا اشارہ پایا جائے البتہ کنایہ کی زبان استعمال کرسکتا ہے۔ یہ شرط عورت کی پریشان حالی کی وجہ سے عائد کی گئی ہے کیونکہ عدّت اور صدمے کے ایّام میں اس کے ساتھ نکاح کی واضح بات کرنا ہمدردی کے بجائے اس کی افسردگی میں اضافہ اور دکھے ہوئے دل پر نمک پاشی کرنے کے مترادف ہے۔ شاید ہی کوئی بیوہ ہو جس کے لیے اس کے خاوند کا فوت ہونا معمولی بات ہو ورنہ خاوند کے اٹھ جانے کے خیال سے ہی ایک شریف عورت جدائی اور تنہائی کے تصور سے کانپ جاتی ہے۔ اگر اس کے چھوٹے چھوٹے بچے اور مالی حالات بہتر نہ ہوں تو اس کی زندگی ویران اور مستقبل تاریک ہوجاتا ہے۔ بیوہ کی عدّت کے دوران نکاح کا واضح پیغام بھیجنا اخلاقی قدروں کے منافی ہے ایسی صورت میں دیکھنے اور سننے والا یہ سمجھے گا کہ شاید یہ اپنے خاوند کے مرنے کے انتظار میں تھی۔ ہاں اشارے، کنائے سے آگاہ کرنے کی اجازت دینا اپنے دامن میں کئی حکمتیں لیے ہوئے ہے۔ سب سے بڑی اور جامع حکمت اسی حکم میں بیان کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اشارے کی زبان استعمال کرنے کی اس لیے اجازت دی ہے کہ وہ جانتا ہے کہ نکاح کے خواہشمند لوگ ضرور کسی انداز میں اپنے جذبات کا اظہار کریں گے۔ اس اخلاقی جرم سے بچانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے از راہ کرم تمہیں کنایہ استعمال کرنے کی اجازت عطا فرمائی ہے تاہم یہ اشارات اس وقت تک نکاح کے عزم کے ترجمان نہیں ہونے چاہییں جب تک اللہ تعالیٰ کا مقرر کردہ ضابطہ اپنے وقت کو نہ پہنچ جائے یعنی عدت پوری نہ ہوجائے۔ عزم نکاح کے اظہار سے اس لیے بھی منع کیا گیا کہ کہیں عورت غم اور پریشانی کے عالم میں اپنے مستقبل کے بارے میں غلط فیصلہ نہ کربیٹھے۔ آخر میں ارشاد ہوتا ہے کہ لوگو! یہ بات یاد رکھنا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے جذبات اور عزائم کو اچھی طرح جانتا ہے لہٰذا اس کی نافرمانیوں سے بچ کر رہنا اور یہ بھی یاد رکھو اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے کے باوجود معاف کرنے والا نہایت ہی برد بار ہے۔ عدّت کے مسائل : (عَنْ أُمِّ عَطِیَّۃَ قَالَتْ کُنَّا نُنْھٰی أَنْ نُحِدَّ عَلٰی مَیِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثٍ إِلَّا عَلٰی زَوْجٍ أَرْبَعَۃَ أَشْھُرٍ وَّعَشْرًا وَلَانَکْتَحِلَ وَلَا نَطَّیَّبَ وَلَا نَلْبَسَ ثَوْبًا مَصْبُوْغًا إِلَّا ثَوْبَ عَصْبٍ وَقَدْ رُخِّصَ لَنَا عِنْدَ الطُّھْرِ إِذَا اغْتَسَلَتْ إِحْدَانَا مِنْ مَحِیْضِھَا فِیْ نُبْذَۃٍ مِنْ کُسْتِ أَظْفَارٍ وَکُنَّا نُنْھٰی عَنِ اتِّبَاعِ الْجَنَآئِزِ) [ رواہ البخاری : کتاب الطلاق، باب القسط للحادۃ عند الطھر] ” حضرت ام عطیہ (رض) کہتی ہیں ہمیں منع کیا جاتا تھا کہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کریں سوائے شوہر کے۔ شوہر کے مرنے پر چار مہینے دس دن سوگ کریں اور عدت کے زمانے میں نہ سرمہ لگائیں نہ خوشبو لگائیں نہ رنگا ہوا کپڑا پہنیں سوائے اس کپڑے کے جو بننے سے پہلے رنگا گیا ہو۔ البتہ ہمیں اس بات کی اجازت تھی کہ جب ماہواری کے غسل کے بعد خوشبو کے پھنبے کو خون کی جگہ پر پھیر لیں۔ اور جنازے کے پیچھے جانے سے بھی روکا جاتا تھا۔“ ” رسول اللہ (ﷺ) فرماتے ہیں بیوہ عدّت کے دوران نہ زرد کپڑا پہنے نہ زیور پہنے اور نہ خضاب لگائے۔“ [ رواہ ابو داوٗد : کتاب الطلاق، باب فیما تجتنبہ المعتدۃ فی عدتھا] مسائل : 1۔ بیوہ کو عدّت کے دوران نکاح کا پیغام بھیجنا منع ہے۔ 2۔ عدّت کے دوران بیوہ کو نکاح کا اشارہ دیاجاسکتا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کے حال سے واقف ہے۔ 4۔ ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا نہایت ہی بردبار ہے۔