سورة طه - آیت 45

قَالَا رَبَّنَا إِنَّنَا نَخَافُ أَن يَفْرُطَ عَلَيْنَا أَوْ أَن يَطْغَىٰ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

دونوں نے کہا اے ہمارے رب! ہمیں خوف ہے کہ کہیں فرعون ہم پر کوئی زیادتی نہ کرے یا اپنی سرکشی میں بڑھ نہ جائے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 45 سے 48) ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ عظیم معجزات پانے کے باوجود حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا فرعون سے خوفزدہ ہونا۔ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون ( علیہ السلام) کو فرعون کی طرف بھیجنے سے پہلے بتلا دیا گیا تھا کہ فرعون بغاوت اور نافرمانی میں تمام حدیں پھلانگ چکا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کے ہاں پرورش پائی تھی وہ اسے بہت قریب سے جانتے تھے کہ فرعون بڑا ہی ظالم اور سفاک انسان ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی سچ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے مصر کو اس لیے چھوڑا تھا کہ وہاں ان کے ہاتھوں حکمران پارٹی کا سھوًا ایک آدمی قتل ہوگیا تھا۔ ان وجوہات کی بنا پر حضرت موسیٰ اور ہارون نے اپنے رب کے حضور اپنے دل کی کیفیت عرض کرتے ہوئے فریاد کی کہ اے ہمارے رب ہمیں شدید خطرہ ہے کہ فرعون ہم پر زیادتی کرے گا۔ اس کے جواب میں حضرت موسیٰ اور ہارون ( علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے اطمینان دلاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ آپ دونوں کو فرعون سے ڈرنے کی ضرورت نہیں یقین رکھو کہ میں تمھاری باتیں سن رہا ہوں گا اور ہر لمحہ تمھاری دستگیری کروں گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر کسی کی بات سنتا ہے اور ہر چیز اس کے سامنے ہے لیکن یہاں یہ الفاظ استعمال فرما کر حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون ( علیہ السلام) کو بالخصوص یہ تسلی دی گئی ہے کہ فرعون سے ڈرنے اور دبنے کی ضرورت نہیں کیونکہ میری معیت اور نگرانی ہر وقت تمھارے ساتھ ہوگی۔ جس کو اللہ تعالیٰ کی معیت اور خصوصی توجہ نصیب ہوجائے وہ اپنے دشمن سے کبھی مرعوب نہیں ہوتا۔ اس سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ وقت کا نبی بھی چند لمحوں کے لیے کسی دشمن سے خوفزدہ ہوسکتا ہے۔ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون ( علیہ السلام) کو اس بات کی تسلی دینے کے بعد حکم فرمایا کہ اب فرعون کے پاس جاؤ اور اسے بتلاؤ کہ ہمیں ہمارے رب نے رسول منتخب کیا ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے کی اجازت دو اور ان پر ظلم کرنے سے باز آجاؤ۔ ہم تیرے پاس تیرے رب کی نشانیوں کے ساتھ آئے ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ہدایت کی اتباع کرے گا وہ سلامت رہے گا۔ ہمیں اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی بتلایا ہے کہ جس نے اللہ تعالیٰ کی ہدایت کو جھٹلایا اور اس سے منہ پھیر لیا اسے عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی پہلی ملاقات میں فرعون کو دین کے تین بنیادی امور سے آگاہ فرمایا اور بنی اسرائیل کی آزادی کا مطالبہ کیا۔ 1۔ رسول کا معنٰی ہے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے اور اس پر عمل کرکے دکھلانے والا۔ 2۔ رب کا معنٰی ہے کائنات کا خالق، مالک اور ہر کسی کی ضرورت پوری کرنے والا۔ 3۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کی ہدایت کو ٹھکرائے گا وہ قیامت کے دن عذاب میں مبتلا ہوگا۔ 4۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) نے اپنی قوم کی آزدی کا بھی مطالبہ کیا کیونکہ آزاد قوم ہی فکر و عمل کے حوالے سے اسلامی اقدار پر عمل اور انقلاب برپا کرسکتی ہے۔ گویا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا پہلا خطاب عقیدہ توحید، نبوت کے اغراض و مقاصد، فکرآخرت اور قوم کی آزادی کے مطالبہ پر مشتمل تھا۔ یہی دین کے بنیادی عناصر ہیں باقی مسائل: انہی کی تشریح اور تقاضے ہیں۔ مسائل: 1۔ جب اللہ کی معیت حاصل ہو تو کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ 2۔ جو شخص ہدایت کی اتباع کرے گا اس کے لیے دنیا اور آخرت میں سلامتی ہوگی۔ 3۔ جو اللہ تعالیٰ کی ہدایت سے انحراف کرے گا وہ دنیا میں پریشان اور آخرت میں عذاب میں مبتلا ہوگا۔ تفسیر بالقرآن: اتّباع ہدایت کے دنیا اور آخرت میں فوائد : 1۔ اللہ کی ہدایت پر عمل کرنے والا بے خوف ہوگا۔ (البقرۃ:38) 2۔ امت کو قرآن کی اتباع کا حکم دیا گیا ہے قرآن وسنت کو چھوڑ کر دوسرے کی اتباع نہیں کرنی چاہیے (الاعراف :3) 3۔ میں تو اسی بات کی پیروی کرتا ہوں جس کی میری طرف وحی کی گئی ہے۔ (یونس : 15۔ الاعراف :203) 4۔ اپنے رب کی ہدایت پر چلنے والے ہی فلاح پانے والے ہیں۔ (لقمان : 5، البقرۃ:5) 5۔ اے ایمان والو! اگر تم ہدایت پر رہو تو گمراہوں کی گمراہی تمھیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ (المائدۃ:105) 6۔ قرآن مجید سرا پارحمت اور کتاب ہدایت ہے۔ (لقمان :3) 7۔ اللہ کے لیے خرچ کرنے والے کو کوئی خوف نہیں۔ (البقرۃ :262) 8۔ نماز اور زکوٰۃ ادا کرنے والے کو کوئی خوف نہیں۔ (البقرۃ :277) 9۔ ایمان پر استقامت دکھلانے والوں کو کوئی خوف نہیں۔ (الاحقاف :13) 10۔ اللہ کے دوستوں کو کوئی خوف نہیں۔ (یونس :62)