اذْهَبْ أَنتَ وَأَخُوكَ بِآيَاتِي وَلَا تَنِيَا فِي ذِكْرِي
اب تو اپنے بھائی سمیت میری نشانیاں ہمراہ لئے ہوئے جا، اور خبردار میرے ذکر میں سستی نہ کرنا (١)
فہم القرآن: (آیت 42 سے 44) ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے جس کام کے لیے موسیٰ (علیہ السلام) کو منتخب کیا تھا اس کے لیے موسیٰ (علیہ السلام) کو پہلا حکم۔ انبیاء (علیہ السلام) میں موسیٰ (علیہ السلام) پہلے پیغمبر ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے نبوت عطا کرنے کے ساتھ ہی دو عظیم معجزے عنایت فرمائے۔ موسیٰ (علیہ السلام) اپنی بغل میں ہاتھ دبا کر باہر نکالتے تو وہ سورج سے زیادہ روشن دکھائی دیتا اپنا عصا پھینکتے تو اللہ کے حکم سے وہ اژدھا بن جاتا اس کے ساتھ کئی کام لیتے اس کے باوجود حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے اپنے بھائی ہارون کو نبوت دینے اور اپنی زبان کی لکنت دور کرنے کی درخواست کی دونوں درخواستوں کو من و عن قبول کرلیا گیا۔ اب موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم ہوا کہ تو اور تیرا بھائی دلائل اور معجزات کے ساتھ فرعون کے پاس جاؤ۔ لیکن کسی لمحہ میری یاد سے سستی نہ کرنا۔ فرعون کے پاس جاؤ مگر یاد رکھنا وہ بڑا ہی باغی اور سرکش ہے۔ اس کے باوجود اس کے ساتھ نہایت ہی نرم لب و لہجہ کے ساتھ بات کرنا۔ ممکن ہے کہ وہ اس پر غور کرے یا اپنے رب سے ڈر جائے۔ اس موقع پر موسیٰ (علیہ السلام) کو بالخصوص دو نصیحتیں کی گئیں۔ 1۔ فرعون کی طرف جاتے ہوئے اور اس سے گفتگو کے دوران اپنے رب کو مسلسل یاد کرتے رہنا۔ کیونکہ رب کی یاد ہی انسان کو دشمن کے خوف اور ہر قسم کی گھبراہٹ سے محفوظ رکھتی ہے۔ اس لیے قرآن مجید کا ارشاد ہے کہ لوگو! اللہ کا ذکر دلوں کے لیے اطمینان اور تسکین کا باعث ہے۔ (الرعد :28) 2۔ فرعون کو توحید کی دعوت دیتے ہوئے سخت لب ولہجہ اور ترش الفاظ استعمال کرنے کی بجائے نرم انداز اور الفاظ میں سمجھانا کیونکہ جو بات اچھے انداز میں کی جائے اس کا بہتر نتیجہ نکلنے کی امید ہوتی ہے اگر اچھی بات برے انداز اور تلخ لہجہ میں کی جائے تو اس کا نتیجہ اکثر منفی نکلتا ہے۔ اس لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو تلقین کی گئی کہ وہ فرعون کی تلخی کا جواب تلخی سے دینے کے بجائے نرمی اختیار کریں۔ ﴿اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بالْحِکْمَۃِ وَ الْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَ جَادِلْھُمْ بالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ اِنَّ رَبَّکَ ھُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِہٖ وَ ھُوَ اَعْلَمُ بالْمُھْتَدِیْنَ﴾ [ النحل :125] ” اے پیغمبر لوگوں کو دانش اور اچھی نصیحت سے اپنے پروردگار کے راستے کی طرف بلاؤ۔ بہت ہی اچھے طریق سے ان سے بحث کرو۔ جو اس کے رستے سے بھٹک گیا تمہارا پروردگار اسے خوب جانتا ہے اور جو راستے پر چلنے والے ہیں ان سے بھی خوب واقف ہے۔“ ﴿وَلاَ تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلا السَّیِئَۃُادْفَعْ بالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ فَاِِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ﴾ [ حم السجدۃ:34] ” اور بھلائی اور برائی برابر نہیں ہو سکتی۔ ایسے طریق سے جواب دو جو بہت اچھا ہو۔ ایسا کرنے سے تم دیکھو گے کہ جس میں اور تم میں دشمنی تھی گویا وہ تمہارا گرم جوش دوست ہے۔“ مسائل: 1۔ مخالف کس قدر ہی مغرور اور متکبر کیوں نہ ہو دعوت کے دوران اسے بھی نرمی کے ساتھ سمجھانا چاہیے۔ 2۔ فرعون پرلے درجے کا باغی اور اپنے رب کا نافرمان تھا۔ 3۔ مبلغ کو اپنے رب کے ذکر سے غافل نہیں رہنا چاہیے۔ 4۔ اللہ کو بہت زیادہ یاد کیا کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔ تفسیر بالقرآن: ذکر کے مختصر دینی اور دنیوی فوائد : 1۔ اللہ کا ذکر دلوں کے لیے سکون و اطمینان کا باعث ہے۔ (الرعد :28) 2۔ اپنے رب کی حمد و تسبیح بیان کرو اور سجدہ کرنے والوں میں سے ہوجاؤ۔ (الحجر :98) 3۔ اللہ کے ذکر سے غافل لوگ گھاٹے میں رہتے ہیں۔ (المنافقون :9) 4۔ اللہ کے ذکر سے اعراض کرنا اس کے عذاب کو دعوت دینا ہے۔ (الجن :17) 5۔ اللہ کو کثرت کے ساتھ یاد کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔ (الجمعۃ:10) 6۔ اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والوں کے لیے مغفرت اور بڑا اجر ہے۔ (الاحزاب :35) 7۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا۔ (البقرۃ :152)