قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي
موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا اے میرے پروردگار! میرا سینہ میرے لئے کھول دے۔
فہم القرآن: (آیت 25 سے 28) ربط کلام : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی فرعون کے پاس جانے سے پہلے اپنے رب کے حضور دو التجائیں۔ دعوت توحید کا کام ہر دور میں مشکل رہا ہے لیکن کچھ انبیائے کرام (علیہ السلام) کو یہ کام بالکل ہی غیر معمولی اور انتہائی مشکل حالات میں کرنا پڑا۔ جن میں چار انبیائے کرام (علیہ السلام) سرفہرست ہیں۔ حضرت نوح (علیہ السلام)، حضرت ابراہیم (علیہ السلام)، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور نبی آخرالزمان (ﷺ) نے جن حالات میں دعوت توحید کا کام کیا وہ تاریخ عالم میں مشکل ترین ادوار سمجھے جاتے ہیں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے ساڑھے نو سو سال محنت فرمائی بالآخر دعا کی کہ الٰہی اب تو کفار کا ایک گھر بھی باقی نہیں رہنا چاہیے۔ (نوح :26) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نبوت ملنے کے باوجود انشراح صدر اور اطمینان قلب کے لیے ایک مشاہدہ کی درخواست کرتے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے منظور کرتے ہوئے ان کے ہاتھوں چار پرندے ذبح کروانے کے بعد ان کے سامنے زندہ کیا۔ تفصیل کے لیے سورۃ البقرۃ کی آیت 260ملاحظہ فرمائیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو فرعون کے پاس جانے سے پہلے دو عظیم معجزے عنایت کیے گئے لیکن اس کے باوجود حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنے رب کے حضور مزید التجائیں کرتے ہیں۔ جہاں تک سرور دو عالم نبی آخر الزمان (ﷺ) کا تعلق ہے آپ کو جونہی توحید کی دعوت دینے کا حکم ہوا آپ نے حالات کی پرواہ کیے بغیر اپنے کام کا آغاز کردیا حالانکہ اقتدار کے سوا فرعون اور ابو جہل کے درمیان خاص فرق نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے بدر کے موقعہ پر ابو جہل کی لاش کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ یہ میری امت کا فرعون تھا۔ (سیرت ابن ہشا م) موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے رب کے حضور یہ درخواست کی کہ میرے رب میرا سینہ کھول دے میرے لیے میرا کام آسان کر دے اور میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ میرے مخاطب میری بات کو اچھی طرح سمجھ سکیں۔ یاد رہے کہ جب تک انسان کو اپنے کام کے بارے میں انشراح صدر نہ ہو وہ کام انسان اطمینان اور پوری یکسوئی سے نہیں کر پاتا۔ توحید کی دعوت ایسا کام ہے جس کے لیے انتہا درجے کا انشراح ضروری ہے بصورت دیگر انسان میں وہ ہمّت یا داعیہ پیدا نہیں ہوتا، جو اس اہم اور مشکل ترین کام کے لیے ضروری ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اس عظیم دعوت کے مقابلہ میں اپنی کم مائیگی اور بے بضاعتی کا اور فرعون کے جورواستبداد کا اچھی طرح علم تھا اس لیے انھوں نے یہ بھی دعا کی کہ اے رب! اس مشکل کام کو میرے لیے آسان بنا دے اس کے ساتھ ہی انھوں نے اپنی قوت گویائی کے بارے میں دعا کی کہ بارے الٰہا! میری زبان پوری طرح واضح نہیں ہے اس کی گرہ بھی کھول دیجیے تاکہ میں مؤثر اور واضح انداز میں گفتگو کرسکوں زبان کی گرہ کے بارے میں مفسرین نے دو آراء کا اظہار کیا ہے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ زبان کی گرہ سے مراد یہ ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) دس سال تک مدین میں ٹھہرے رہے تھے جس وجہ سے انھیں اپنی زبان بالخصوص اعلیٰ طبقہ کے انداز کے مطابق بات کرنے میں وہ روانی حاصل نہیں تھی جو دعوت توحید کا تقاضا تھا۔ دوسرے اہل علم کا خیال ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) جب چھوٹی عمر میں فرعون کے ہاں پرورش پار ہے تھے تو ایک دن انھوں نے معصومانہ ہاتھوں کے ساتھ فرعون کی داڑھی نوچ لی جس سے فرعون کو شک گزرا کہ یہ وہی بچہ ہے جو بڑا ہو کر میرے اقتدار کو چیلنج کرے گا۔ اس نے موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنا چاہا تو اس کی بیوی نے کہا کہ یہ معصوم ہے اسے کیا خبر کہ کس چیز کو پکڑنا ہے اور کس کو ہاتھ نہیں لگانا۔ جس پر آزمانے کے لیے موسیٰ کے سامنے ایک طرف چمکتے ہوئے ہیرے اور دوسری طرف آگ کے انگارے رکھ دیے گئے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے آگ کے انگارے پکڑ کر منہ میں ڈال لیے جس وجہ سے ان کی زبان میں کچھ لکنت پیدا ہوگئی تھی اس کے لیے انھوں نے یہ دعا کی تھی۔ واللہ اعلم۔ مسائل: 1۔ عقیدۂ توحید اور نیکی کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے انشراح صدر کی دعا کرنی چاہیے۔ 2۔ ہر مشکل کے لیے اللہ تعالیٰ سے آسانی طلب کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن: حق ماننے اور اس کی اتّباع کے لیے انشراح صدر ضروری ہے : 1۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے انشراح صدر کی دعا کی۔ (طٰہٰ:25) 2۔ اللہ تعالیٰ نے حق سمجھنے اور سمجھانے کے لیے نبی آخر الزمان (ﷺ) کا سینہ کھول دیا۔ (الم نشرح :1) 3۔ اللہ تعالیٰ حق بات کے لیے جس کا سینا کھول دے اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نور بصیرت ہوجاتا ہے۔ (الزمر :22) 4۔ حق جاننے اور اسے کما حقہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے۔ ﴿رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا﴾ پڑھنا چاہیے۔ (طٰہٰ:114)