وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ سَرِّحُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ ۚ وَلَا تُمْسِكُوهُنَّ ضِرَارًا لِّتَعْتَدُوا ۚ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ ۚ وَلَا تَتَّخِذُوا آيَاتِ اللَّهِ هُزُوًا ۚ وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَمَا أَنزَلَ عَلَيْكُم مِّنَ الْكِتَابِ وَالْحِكْمَةِ يَعِظُكُم بِهِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
جب تم عورتوں کو طلاق دو وہ اپنی عدت ختم کرنے پر آئیں تو اب انہیں اچھی طرح بساؤ یا بھلائی کے ساتھ الگ کر دو (١) اور انہیں تکلیف پہنچانے کی غرض سے ظلم اور زیادتی کے لئے نہ روکو جو شخص ایسا کرے اس نے اپنی جان پر ظلم کیا تم اللہ کے احکام کو ہنسی کھیل نہ (٢) بناؤ اور اللہ کا احسان جو تم پر ہے یاد کرو اور جو کچھ کتاب و حکمت اس نے نازل فرمائی ہے جس سے تمہیں نصیحت کر رہا ہے اس سے بھی۔ اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو اور جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جانتا ہے۔
فہم القرآن : ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ بیوی کو طلاق دینا جائز قرار دینے کے باوجود اسلام میں اس قدر مشکل بنا دیا گیا ہے کہ آدمی طلاق دینے سے پہلے بار بار اس پر غور اور اس کے مضرات سمجھنے کی کوشش کرے۔ کیونکہ شریعت کا نقطۂ نگاہ یہ ہے کہ جس حد تک ممکن ہو میاں بیوی کے درمیان یہ بابرکت اور پاکیزہ بندھن ٹوٹنا نہیں چاہیے۔ رسول معظم (ﷺ) فرمایا کرتے تھے : ( أَ بْغَضُ الْحَلَالِ إِلَی اللّٰہِ الطَّلَاقُ) [ رواہ أبو داوٗد : کتاب الطلاق‘ باب فی کراھیۃ الطلاق] ” اللہ تعالیٰ کے ہاں طلاق جائز ہونے کے باوجود ناپسندیدہ عمل ہے۔“ لہٰذا اگر میاں بیوی کے درمیان ناچاقی اور نااتفاقی کا ماحول پیدا ہوجائے تو اس خلیج کو پاٹنے اور غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے یکے بعد دیگرے کئی اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔ ان پر عمل کیے بغیر کوئی طلاق دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک طرح کا مجرم تصور ہوگا۔ کیونکہ عام تعلقات اور رشتہ داریوں کے بارے میں ارشاد ہے کہ جس نے رشتہ داری اور صلہ رحمی کو منقطع کیا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کو اپنے رشتۂ رحمت سے کاٹ دے گا۔ [ رواہ البخاری : کتاب الادب، باب من وصل وصلہ اللّٰہ] شریعت نے طلاق سے پہلے جو اقدامات تجویز فرمائے ہیں وہ مرحلہ وار ایک طویل سلسلہ ہے جس کا اختصار پیش کیا جاتا ہے۔ 1۔بیوی کو مسلسل نصیحت کرنا۔ 2۔ بیوی کی عادت پسند نہیں تو پھر بھی گزارا کرنا۔ 3۔ بستر الگ کردینا۔ 4۔ ہلکی پھلکی سزا دینا۔ 5۔فریقین کے خاندان میں سے دو ثالث مقرر کرنا۔ 6۔طلاق طہر کی حالت میں دینا۔ مطلقہ اپنے خاوند کے گھر میں عدّت گزارنے کی مجاز ہے۔ حاملہ ہونے کی صورت میں وضع حمل تک اپنے خاوند کے گھر رہنے کا اسے حق دینا ہے۔ اس صورت میں وضع حمل تک خاوند اپنی بیوی کے نان ونفقہ اور دیگر ضروریات کا ذمہ دار ہوگا۔ طلاق رجعی کی صورت میں رجوع کرنے کا حق رکھتا ہے۔ تاکہ نباہ کی کوئی نہ کوئی شکل پیدا ہوجائے اور انہیں بار بار سمجھنے‘ سوچنے اور حالات کو نارمل کرنے کا موقع میسر آئے یہ سب کے سب اقدامات اگر بے نتیجہ ثابت ہوتے ہیں تو پھر حکم ہے کہ اچھے طریقے کے ساتھ اسے الوداع کیا جائے اور خاوند کے لیے حکم ہے کہ وہ عورت کو تکلیف دینے کے لیے عورت کے آگے نکاح کرنے میں کسی قسم کی منفی حرکت اور رکاوٹ پیدا نہ کرے۔ جس نے ایسا کیا حقیقتاً وہ اپنے آپ پر ظلم کرے گا۔ ظاہر ہے کوئی عقل مند اپنے آپ پر ظلم نہیں کیا کرتا اپنے آپ پر ظلم کا معنیٰ ہے دنیا میں اس کی عزت میں فرق آئے گا اور قیامت کے دن پکڑ ہوگی اس ظلم سے باز رکھنے کے لیے مختلف انداز سے چار دفعہ سمجھایا گیا ہے۔ جب کہ پچھلی آیات میں میاں بیوی کے درمیان اخلاقی قدروں اور ازدواجی بندھن کو حدود اللہ قراردیا گیا ہے۔ یہاں انتباہ کیا کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کو مذاق سمجھنے کی جرأت نہ کرنا۔ اس نے جو تمہیں باہم رہنے کے اصول اور تنازعات ختم کرنے کے ضابطے اور اکٹھا رہنے کے بار بار مواقع فراہم کیے ہیں۔ یہ سراسر اس کی طرف سے انعامات ہیں۔ اللہ تعالیٰ کسی قوم کو اپنی کتاب اور پر حکمت احکام اس لیے عطا فرماتا ہے کہ وہ ان سے استفادہ اور نصیحت حاصل کرے۔ پھر انتباہ کرتے ہوئے اپنی ذات سے ڈرایا کہ اللہ تعالیٰ سے ڈر کر رہنا سیکھو اور جانو کہ اللہ تعالیٰ تمہاری گھریلو اور پبلک زندگی کی ہر ہر حرکت سے واقف ہے۔ مسائل : 1۔ عدّت کے دوران عورت کو اچھے انداز سے رکھنا یا اچھے انداز سے فارغ کرنا چاہیے۔ 2۔ عورت کو کسی دوسرے کے ساتھ نکاح کرنے سے روکنا اپنے آپ پر ظلم کرنا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات کو مذاق نہیں بنانا چاہیے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ کے انعامات کو یاد رکھنا چاہیے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ نے کتاب و حکمت اس لیے نازل فرمائے کہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔ 6۔ ہر دم اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے کیونکہ وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے