وَمَا تِلْكَ بِيَمِينِكَ يَا مُوسَىٰ
اے موسٰی! تیرے اس دائیں ہاتھ میں کیا ہے؟
فہم القرآن: (آیت 17 سے21) ربط کلام : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو فکر آخرت کا سبق دے کر یہ بات سمجھائی گئی کہ اے موسیٰ (علیہ السلام) ! جو شخص آخرت پر ایمان نہیں رکھتا اس کے پیچھے لگنے اور اس سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ فرعون پرلے درجے کا نافرمان، باغی اور ظالم انسان تھا جس وجہ سے موسیٰ (علیہ السلام) کو پہلی وحی کے وقت بتلا یا اور سمجھایا گیا کہ اے موسیٰ (علیہ السلام) ! بے شک فرعون حد سے بڑھا ہوا ظالم اور نافرمان ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس کے خوف کی وجہ سے آپ کو اس کی کسی بات کو نہیں ماننا چاہیے۔ اگر آپ خوف یا کسی وجہ سے حق بات کہنے سے رک گئے یا خوف کی وجہ سے اس کے سامنے جھک گئے تو یاد رکھیں آپ بھی ہلاک ہونے والوں میں شامل ہوں گے۔ اس کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) کو از راہ محبت اور ان کی تربیت کی خاطر یہ سوال کیا کہ اے موسیٰ تیرے ہاتھ میں کیا ہے موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا میرے رب میرے ہاتھ میں لاٹھی ہے میں اس کے ساتھ بھیڑ بکریوں کے لیے درختوں سے پتے جھاڑتا ہوں جب تھک جاؤں تو اس کا سہارا لیتا ہوں میرے لیے اس میں اور بھی کئی فائدے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے صرف اتنا ہی استفسار فرمایا تھا کہ اے موسیٰ تیرے ہاتھ میں کیا ہے ؟ لیکن موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کی قربت اور محبت کی وجہ سے ایک سوال کے جواب میں تین جوابات عرض کیے جس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ بندے کو دعا اور اللہ کی عبادت کرتے ہوئے جب اس کی رحمت اور قرب کی لذت محسوس ہوتی ہے تو پھر اس پر وجد کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے اگر قیام میں ہو تو اللہ تعالیٰ کو اس قدر یاد کرتا ہے کہ اسے اپنے قیام کی طوالت کا احساس نہیں رہتا۔ اگر رکوع اور سجود میں اللہ تعالیٰ کی قربت کا احساس ہوجائے تو دیر تک رکوع میں جھکا اور سجدے میں پڑا رہتا ہے۔ اسی قرب اور لذت کی وجہ سے نبی (ﷺ) اس قدر طویل قیام کرتے کہ آپ کے پاؤں پر سوجن پڑجاتی تھی۔ اسی سبب ہی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ایک استفسار کے بدلے تین جواب عرض کیے تاکہ میں اپنے رب کے ساتھ دیر تک محو گفتگو رہ سکوں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو معلوم تھا کہ میرے ہاتھ میں لاٹھی ہے اور اللہ تعالیٰ سے بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے۔ مگر اس کے باوجود موسیٰ (علیہ السلام) کو ذہنی طور پر تیار کرنے کے لیے ارشاد فرمایا کہ اے موسیٰ ! تیرے ہاتھ میں کیا ہے ؟ موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کی محبت کے سرور میں آکر پے درپے کئی جواب عرض کیے۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) کی بات پوری ہوئی اور ان کی کامل توجہ اپنی لاٹھی کی طرف مرکوز ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اے موسیٰ ! اپنی لاٹھی کو زمین پر پھینکیں جو نہی موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے ہاتھ سے لاٹھی پھینکی تو وہ بہت بڑا اژدھا بن کر لہرانے لگا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم ہوا کہ اس اژدھا سے ڈرنے کی ضرورت نہیں آگے بڑھ کر اسے پکڑ لیں یہ پہلے کی طرح پھر لاٹھی بن جائے گا۔ یاد رہے کہ سیرت کا معنی ہے حالت اور کیفیت سیرت طیبہ سے مراد پاکیزہ زندگی اور عمدہ کردار۔ اس کے اوّلین اور کامل ترین مصداق سرور دو عالم (ﷺ) ہیں۔ آپ (ﷺ) کی سیرت کو پوری امت کے لیے اسوہ حسنہ قرار دیا گیا ہے۔ مسائل: 1۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کی محبت اور قربت محسوس کرتے ہوئے ایک سوال کے کئی جواب عرض کیے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو چوکنا کرنے کے لیے ان کے عصا کے بارے میں سوال کیا۔ تفسیر بالقرآن: حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے عصا کا تذکرہ : حضرت موسیٰ کے عصا کا تذکرہ قرآن میں 10بار آیا ہے۔ جو مندرجہ ذیل ہے۔ البقرۃ، 60، الاعراف : 108، 118، 160، الشعراء : 23، 45، 63، النمل : 10، القصص : 31، طٰہٰ: 18 1۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم نے جب پانی طلب کیا تو موسیٰ کو اپنا عصا پتھر پر مارنے کا حکم دیا گیا۔ (البقرۃ:60) 2۔ جب فرعون لاؤ لشکر سمیت بنی اسرائیل کے خلاف چڑھ دوڑا تو موسیٰ کو اپنا عصا دریا پر مارنے کا حکم ہوا۔ (الشعراء :63) 3۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) سے پوچھا کہ تیرے ہاتھ میں کیا ہے موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ یہ میرا عصا ہے۔ (طٰہٰ: 17، 18) 4۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے عصا کو جب زمین پر پھینکا تو وہ بہت بڑا اژدھا بن گیا۔ (النمل :10) 5۔ موسیٰ (علیہ السلام) عصا کو سانپ بنتا ہوا دیکھ کر ڈر کے مارے بھاگ کھڑے ہوئے۔ ( القصص :31)