تَنزِيلًا مِّمَّنْ خَلَقَ الْأَرْضَ وَالسَّمَاوَاتِ الْعُلَى
اس کا اتارنا اس کی طرف سے ہے جس نے زمین کو اور بلند آسمان کو پیدا کیا ہے۔
فہم القرآن: (آیت 4 سے 7) ربط کلام : جس ذات کبریا نے یہ قرآن نازل کیا ہے اس کا تعارف۔ قرآن مجید اس ذات کبریا نے نازل کیا ہے جس نے زمین اور بلند و بالا آسمانوں کو پیدا کیا ہے۔ زمین و آسمان کو پیدا کرنے کے بعد الرحمن عرش پر مستوی ہوا۔ جس طرح اس کی شایان شان ہے۔ زمین و آسمانوں اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اور جو کچھ زمین کے نیچے ہے سب کا سب اسی مالک کی ملکیت ہے۔ لہٰذا آپ اونچی آواز سے بات کریں یا آہستہ انداز میں دل ہی دل میں کہیں وہ خفیہ اور آہستہ سے آہستہ آواز کو سنتا ہی نہیں بلکہ دل میں پیدا ہونے والے خیالات اور احساسات کو جانتا ہے۔ یہاں پہلے یہ بات سمجھائی ہے کہ اے پیغمبر آپ کفار کے ظلم اور تسلّط کے بارے میں یہ نہ سوچیں کہ یہ ہمیشہ رہے گا۔ ہرگز نہیں کیونکہ زمین و آسمان اور جو کچھ ان کے درمیان ہے یہاں تک کہ جو کچھ زمین کے نیچے ہے سب کا سب اسی مالک کی ملک اور اس کے تابع فرمان ہیں اسی نے یہ قرآن نازل کیا ہے۔ لہٰذا نہ آپ کے مخالفین کی کوئی بات اور ظلم اس سے پوشیدہ ہے اور نہ آپ اور آپ کے ساتھیوں کی آہ زاریاں تمھارے رب سے اوجھل ہیں۔ عنقریب وقت آنے والا ہے۔ جب کفار کی گردنیں نیچی ہونگی اور ظلم کی چکی میں پسنے والے مظلوم سربلند ہوں گے۔ یہاں ذات کبریا نے اپنا نام الرحمن لاکر آپ کو تسلی دی ہے کہ آپ اپنا کام کرتے جائیں آپ کا رب الرحمن ہے۔ وہ ضرور آپ پر رحم و کرم فرمائے گا۔ آپ کی دعائیں مستجاب اور آپ کی محنتیں ثمر آور ہوں گی۔ وہ عرش پر جلوہ گر ہے۔ جس طرح اس کی شان ہے۔ اللہ تعالیٰ کے عرش پر جلوہ نما ہونے کے بارے میں بحث کرنا کہ رب ذوالجلال کس حالت اور کس انداز میں جلوہ نما ہے ہمارا کام نہیں۔ ایسی سوچ پیدا ہونے پر لاحَوْلَ وَلَاقُوَّۃً اِلَّا باللّٰہِ پڑھنا چاہیے۔ آسمانوں کی بلندی کا ذکر فرما کر اشارہ دیا کہ عنقریب سرفرازی اور بلندی آپ اور آپ کے ساتھیوں کو نصیب ہوگی اور کفار کے لیے پستی ہوگی۔ (عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ قَالَ اِنِّیْ کُنْتُ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ (ﷺ) اِذْجَاءَ ہٗ قَوْمٌ مِّنْ بَنِیْ تَمِیْمٍ فَقَالَ اقْبَلُوْاالْبُشْرٰی یَا بَنِیْ تَمِیْمٍ قَالُوْا بَشَّرْتَنَا فَاَعْطِنَا فَدَخَلَ نَاسٌ مِّنْ اَھْلِ الْیَمَنِ فَقَالَ اقْبَلُوْا الْبُشْرٰی یَا اَھْلَ الْیَمَنِ اِذْ لَمْ یَقْبَلْھَا بَنُوْ تَمِیْمٍ قَالُوْا قَبِلْنَاجِئْنَاکَ لِنَتَفَقَّہَ فِیْ الدِّیْنِ وَلِنَسْاَلَکَ عَنْ اَوَّلِ ھٰذَا الْاَمْرِ مَا کَانَ قَالَ کَان اللّٰہُ وَلَمْ یَکُنْ شَیْءٌ قَبْلَہٗ وَکَانْ عَرْشُہٗ عَلْی الْمَاءِ ثُمَّ خَلَقَ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضَ وَکَتَبَ فِیْ الذِّکْرِ کُلَّ شَیْءٍ ثُمَّ اَتَانِیْ رَجُلٌ فَقَالَ یَاعِمْرَانُ اَدْرِکْ نَاقَتَکََ فَقَدْ ذَھَبَتْ فَانْطَلَقْتُ اَطْلُبُھَا وَاَیْمُ اللّٰہِ لَوَدِدْتُّ اَنَّھَا قَدْ ذَھَبَتْ وَلَمْ اَقُمْ) [ رواہ البخاری : باب قَوْلِہِ ﴿وَکَانَ عَرْشُہُ عَلَی الْمَاءِ ﴾] ” حضرت عمران بن حصین (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ (ﷺ) کے پاس تھا جب آپ کے پاس بنو تمیم کے کچھ لوگ آئے۔ آپ نے فرمایا‘ اے بنو تمیم! خوشخبری قبول کرو انہوں نے کہا آپ نے ہمیں خوشخبری تو دے دی‘ ہمیں کچھ عطا بھی کریں۔ ان کے بعد اہل یمن کے کچھ لوگ آئے آپ نے فرمایا کہ اے اہل یمن ! خوشخبری قبول کرو‘ آپ سے پہلے بنو تمیم نے اسے قبول نہیں کیا۔ انہوں نے کہا ہم قبول کرتے ہیں آپ کی خدمت میں ہم اس لیے حاضر ہوئے ہیں تاکہ ہم دین کی سمجھ حاصل کریں اور ہم آپ سے کائنات کی ابتداء کے بارے میں پوچھنا چاہیں گے کہ سب سے پہلے کیا چیز تھی؟ آپ نے فرمایا کہ اللہ تھا‘ اور اس سے پہلے کوئی چیز نہیں تھی اس کا عرش پانی پر تھا اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا فرمایا۔ پھر لوح محفوظ میں تمام امور لکھے۔ عمران (رض) کہتے ہیں اتنے میں ایک شخص میرے پاس آیا اور اس نے کہا، اے عمران! اپنی اونٹنی کا پتا کرو وہ بھاگ گئی ہے میں اسے ڈھونڈنے لگا۔ اللہ تعالیٰ کی قسم مجھے یہ پسند تھا کہ اونٹنی بے شک چلی جاتی‘ لیکن میں آپ کی مجلس سے نہ اٹھتا۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ عرش پر جلوہ نما ہے جس طرح اس کی شان ہے۔ 2۔ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے سب اللہ کی ملکیت ہے۔ 3۔ انسان کوئی بات دل میں کہے یا اس کا اظہار کرے اللہ تعالیٰ ہر بات سے باخبر رہتا ہے تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ ظاہر اور پوشیدہ ہر بات اور چیز کو جانتا ہے : 1۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ ظاہر اور پوشیدہ کو جانتا ہے۔ (البقرۃ:77) 2۔ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کی ظاہر اور پوشیدہ چیز کو جانتا ہے۔ (الانعام :3) 3۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ ان کی پوشیدہ سرگوشیوں کو بھی جانتا ہے۔ (التوبۃ:78) 4۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو تم چھپاتے اور جو تم ظاہر کرتے ہو۔ (النحل :19) 5۔ اچھی طرح ذہن نشین کرلو کہ اللہ تعالیٰ پوشیدہ اور آہستہ کہی ہوئی بات جانتا ہے۔ (طٰہٰ:7)