سورة البقرة - آیت 224

وَلَا تَجْعَلُوا اللَّهَ عُرْضَةً لِّأَيْمَانِكُمْ أَن تَبَرُّوا وَتَتَّقُوا وَتُصْلِحُوا بَيْنَ النَّاسِ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور اللہ تعالیٰ کو اپنی قسموں کا (اس طرح) نشانہ نہ بناؤ کہ بھلائی اور پرہیزگاری اور لوگوں کے درمیان کی اصلاح کو چھوڑ بیٹھو (١) اور اللہ تعالیٰ سننے والا اور جاننے والا ہے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 224 سے 227) ربط کلام : میاں بیوی کے درمیان کسی مسئلہ میں تکرار ہوجائے تو بسا اوقات معاملہ بحث وتکرار سے بڑھ کر قسم تک پہنچ جاتا ہے لہٰذا جذباتی قسم کے بارے میں رعایت دی گئی ہے۔ ازدواجی وعائلی مسائل کے دوران قسم کے مسئلہ کی وضاحت اس لیے ضروری سمجھی گئی کہ اس زمانے میں اور آج بھی باہمی مخالفت یا طیش میں آکر لوگ قسم اٹھا لیتے ہیں کہ میں اپنی بیوی کے ساتھ اتنے دن کلام سے اجتناب، بائیکاٹ یا فلاں کام نہیں کروں گا۔ حالانکہ اس موقع پر قسم اٹھانا مناسب بات نہیں ہوتی۔ جہاں تک بیوی سے ایلاء یعنی بائیکاٹ کا معاملہ ہے اس فرمان میں ایلاء کی آخری مدت چار ماہ مقرر کردی گئی۔ خاوند کو اس کے بعد رجوع کرنا یا پھر طلاق دینا ہوگی۔ مسلمان کو ایسی قسم اٹھانے سے روک دیا گیا ہے جو نیکی اور خیر کے کام میں رکاوٹ بنتی ہو۔ یہ قسم اس لحاظ سے عجیب اور غیر دانش مندی کا مظہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کا نام لے کر آدمی کسی نیک کام سے رک جائے حالانکہ اللہ تعالیٰ نیکی کا حکم دیتا اور ہر قسم کی برائی سے منع کرتا ہے۔ یہ کیسے جائز ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا بابرکت اور عظیم نام ہی نیکی میں رکاوٹ بنادیا جائے۔ اس لیے یہاں حکم دیا جارہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نام کو نیکی اور اصلاح بین الناس کے درمیان رکاوٹ نہ بناؤ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ تم کس نیت اور غرض سے اس کے عظیم نام کو استعمال کررہے ہو؟ (عَنْ زَھْدَمَ قَالَ کُنَّا عِنْدَ أَبِیْ مُوْسَی الأَشْعَرِیِّ (رض) قَالَ أَتَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ () فِیْ نَفَرٍ مِنَ الْأَشْعَرِیِّیْنَ فَوَافَقْتُہٗ وَھُوَ غَضْبَانُ فَاسْتَحْمَلْنَاہُ فَحَلَفَ أَنْ لاَّ یَحْمِلَنَا ثُمَّ قَالَ وَاللّٰہِ إِنْ شَآء اللّٰہُ لَآ أَحْلِفُ عَلٰی یَمِیْنٍ فَأَرٰی غَیْرَھَا خَیْرًا مِّنْھَآ إِلَّآ أَتَیْتُ الَّذِیْ ھُوَ خَیْرٌ وَتَحَلَّلْتُھَا) [ رواہ البخاری : کتاب الأیمان والنذور، باب الیمین فیما لایملک الخ] ” حضرت زھدم (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم ابو موسیٰ اشعری (رض) کے پاس تھے وہ فرماتے ہیں میں نبی کریم (ﷺ) کے پاس اشعری قبیلہ کے کچھ افراد کے ہمراہ اس وقت حاضر ہوا جب آپ غصہ میں تھے۔ ہم نے سواری کا مطالبہ کیا تو آپ نے قسم اٹھادی کہ میں تمہیں کچھ نہیں دوں گا۔ پھر آپ نے فرمایا : اللہ کی قسم! اگر اللہ کی مشیت شامل حال ہو تو جس کام پر میں قسم کھاتا ہوں اگر میں اس کے بجائے دوسرے کام کو بہتر سمجھوں تو میں افضل کام کرکے قسم کا کفارہ ادا کردیتا ہوں۔“ یہاں اس بات کی بھی وضاحت فرمادی گئی کہ اللہ تعالیٰ تمہارا انہی قسموں پر مؤاخذہ کرے گا جو تم نے نیتًا اٹھائی ہوں گی کیونکہ اللہ تعالیٰ اعلیٰ ظرف ہونے اور اپنی بخشش کی وجہ سے تمہاری لغو قسموں پر مؤاخذہ نہیں کرتا۔ حالانکہ تم اس کا پاک اور عظیم نام کو بے مقصد کام کے لیے استعمال کرتے ہو۔ لغو کے بارے میں سورۃ المؤمنون آیت : ٣ کی تلاوت کیجئے : ﴿وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ [ المومنون :3] ” مؤمن وہ ہیں جو لغو اور بے مقصد کام اور کلام سے پرہیز کرتے ہیں۔“ رسول مکرم (ﷺ) فرمایا کرتے تھے : (مِنْ حُسْنِ اِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْکُہٗ مَالَا یَعْنِیْہِ) [ رواہ الترمذی : کتاب الزھد] ” آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ بے مقصد کام چھوڑ دے“۔ البتہ جس نے عزم کے ساتھ قسم اٹھائی اور پھر اس قسم کو پورا نہ کیا اس کی سزا ساتویں پارے میں یوں بیان کی گئی ہے۔ ﴿لَا یُؤَاخِذُکُمُ اللّٰہُ باللَّغْوِ فِیْٓ اَیْمَانِکُمْ وَ لٰکِنْ یُّؤَاخِذُکُمْ بِمَا عَقَدْتُّمُ الْاَیْمَانَ فَکَفَّارَتُہ‘ ٓ اِطْعَامُ عَشَرَۃِ مَسٰکِیْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَھْلِیْکُمْ اَوْکِسْوَتُھُمْ اَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَۃِ اَیَّامٍ ذٰلِکَ کَفَّارَۃُ اَیْمَانِکُمْ اِذَا حَلَفْتُمْط وَ احْفَظُوْٓا اَیْمَانَکُمْ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اٰیَاتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ﴾ [ المائدۃ:89] ” اللہ تعالیٰ تمہاری قسموں میں لغو قسم پر تم سے مؤاخذہ نہیں فرماتا لیکن مؤاخذہ اس پر فرماتا ہے کہ تم جن قسموں کو مضبوط کردو۔ اس کا کفارہ دس محتاجوں کو کھانا کھلانا ہے اوسط درجے کا جو اپنے گھروالوں کو کھلاتے ہویا ان کو کپڑا پہنچانایا ایک غلام یا لونڈی آزاد کرنا ہے اور جس کو مقدور نہ ہوتوتین دن کے روزے رکھے۔ یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب تم قسم کھالو اور اپنی قسموں کا خیال رکھو۔ اللہ تعالیٰ تمہارےلیے اپنے احکام اس لیے بیان فرماتا ہے تاکہ تم شکر کرو۔“ مسائل : 1۔ نیکی اور اصلاح بین الناس سے رکنے یا روکنے کے لیے قسم اٹھانا جائز نہیں۔ 2۔ اللہ تعالیٰ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ بے ارادہ قسموں پر مؤاخذہ نہیں کرتا۔ 4۔ عزم کے ساتھ اٹھائی ہوئی قسم پر مؤاخذہ ہوگا۔ 5۔ اللہ تعالیٰ نہایت ہی حوصلے اور معاف کرنے والا ہے۔ 6۔ بیوی سے ایلاء کی مدت چار ماہ ہے۔ 7۔ ایلاء کا معنی ہے بیوی سے بائیکاٹ کرنا۔ تفسیربالقرآن : جھوٹی قسم کا گناہ : 1۔ قسم کو ڈھال نہ بنائیں۔ (البقرۃ:224) 2۔ قسموں کو پورا کرنا چاہیے۔ (النمل :91) 3۔ ناجائز قسموں پر عمل نہ کیا جائے۔ (التحریم : 1، 2) 4۔ صدقہ نہ دینے کی قسم ممنوع ہے۔ (النور :22) 5۔ غلط قسموں کے ذریعے مال بٹورنے والوں کا انجام کیا ہوگا؟ (آل عمران :77) 6۔ جھوٹی قسمیں کھانے والوں کا انجام۔ (التوبۃ:95) 7۔ بلا قصد قسموں پر مؤاخذہ نہیں۔ (المائدۃ:89) قسم کی وجہ سے بیوی سے علیحدگی کی عدّت : 1۔ عورتوں سے علیحدگی کی قسم کی مدت چارماہ ہے۔ (البقرۃ:226) 2۔ چار ماہ کے بعد رجوع ہے یا طلاق دینا ہوگی۔ (البقرۃ: 226، 227)