فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۗ وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْيَتَامَىٰ ۖ قُلْ إِصْلَاحٌ لَّهُمْ خَيْرٌ ۖ وَإِن تُخَالِطُوهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ ۚ وَاللَّهُ يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ ۚ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَأَعْنَتَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
امور دینی اور دنیاوی کو۔ اور تجھ سے یتیموں کے بارے میں بھی سوال کرتے ہیں (١) آپ کہہ دیجئے کہ ان کی خیر خواہی بہتر ہے، تم اگر ان کا مال اپنے مال میں ملا بھی لو تو وہ تمہارے بھائی ہیں، بدنیت اور نیک نیت ہر ایک کو اللہ خوب جانتا ہے اور اگر اللہ چاہتا تو تمہیں مشقت میں ڈال دیتا (٢) یقیناً اللہ تعالیٰ غلبہ والا اور حکمت والا ہے۔
فہم القرآن : ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ کلام کا تسلسل اور سوال وجواب کاسلسلہ جاری ہے۔ لہٰذا اب یتیموں کی اصلاح اور ان کے ساتھ معاشرت کے اصول بیان کیے جارہے ہیں۔ کیونکہ اس سے پہلے یتیموں کے بارے میں یہ احکامات نازل ہوچکے تھے کہ یتیموں کا مال کھانا پیٹ میں جہنم کے انگارے بھرنے کے مترادف ہے۔ اس انتباہ کی وجہ سے صحابہ کرام (رض) اس قدر خوف زدہ اور محتاط ہوئے کہ انہوں نے یتیموں کا کھانا پینا اور ان کے معاملات یکسر طور پر اپنے سے الگ کردیے۔ لیکن اس صورت حال سے نئے مسائل پیدا ہونے شروع ہوئے۔ جس کے لیے یتیموں کے بارے میں مزید وضاحت کی ضرورت پیش آئی۔ چنانچہ وضاحت کی جارہی ہے کہ دراصل اللہ تعالیٰ کے احکام کا منشاء یہ ہے کہ یتیموں کے مال اور ذات کی اصلاح اور خیر خواہی ہونی چاہیے لہٰذا ان کے ساتھ مل جل کر رہنا، ایک ہی جگہ مل کر کھانا، پینا اور ترقی کے نقطۂ نظر سے ان کے مال کو اپنے کاروبار میں شامل کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ کیونکہ پسماندہ اور والدین کی سرپرستی سے محروم ہونے اور اخوت اسلامی کی بنا پر وہ تمہارے بھائی ہیں۔ ان کے ساتھ ایک بھائی جیسی ہی خیر خواہی ہونی چاہیے۔ یہ وضاحت اور آسانی اللہ تعالیٰ کی عنایت ہے ورنہ اللہ تعالیٰ چاہتا تو تم پر سخت احکامات نازل کرسکتا تھا۔ لیکن یاد رکھنا اللہ تعالیٰ تمہاری نیّتوں اور طرز عمل کو جانتا ہے۔ اسے خوب معلوم ہے کہ کون زیادتی اور خرابی اور کون اصلاح کے ارادے سے یتیموں کے مال کو اپنے مال کے ساتھ شامل کررہا ہے۔ بے شک تم عارضی اور وقتی طور پر کمزوروں اور یتیموں پر بالا دست ہو۔ مگر زیادتی نہ کرنا اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ بالا دست اور حکمت والا ہے۔ یتیموں اور بیواؤں کی کفالت کے بارے میں رسول اکرم (ﷺ) کے فرمودات : (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَ ۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) کَافِلُ الْیَتِیْمِ لَہٗ أَوْلِغَیْرِہٖ أَنَا وَھُوَ کَھَاتَیْنِ فِی الْجَنَّۃِ وَأَشَارَ مَالِکٌ بالسَّبَابَۃِ وَالْوُسْطیٰ) [ رواہ مسلم : کتاب الزھد، باب الإحسان إلی الأرملۃِ والمسکین والیتیم] ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول گرامی (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا : قریبی یا کسی دوسرے یتیم کی کفالت کرنے والا اور میں جنت میں ان دوانگلیوں کی طرح ہوں گے۔ راوی نے انگشت شہادت اور درمیانی انگلی کا اشارہ کیا۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ رَجُلًا شَکَا إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ (ﷺ) قَسْوَۃَ قَلْبِہٖ فَقَالَ لَہٗ إِنْ أَرَدْتَ تَلْیِیْنَ قَلْبِکَ فَأَطْعِمِ الْمِسْکِیْنَ وَامْسَحْ رَأْسَ الْیَتِیْمِ) [ مسند أحمد : کتاب باقی مسند المکثرین، باب مسند أبی ھریرۃ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبی (ﷺ) کو دل کے سخت ہونے کی شکایت کی تو آپ (ﷺ ) نے فرمایا : اگر چاہتا ہے کہ تیرا دل نرم ہوجائے تو پھر مسکین کو کھانا کھلا اور یتیم کے سر پر ہاتھ پھیر۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَ ۃَ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (ﷺ) اَلسَّاعِیْ عَلَی الْأَرْمَلَۃِ وَالْمِسْکِیْنِ کَالْمُجَاھِدِ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ أَوِالْقَائِمِ اللَّیْلَ الصَّائِمِ النَّھَارَ) [ رواہ البخاری : کتاب النفقات بابفضل النفقۃ علی الأھل] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : بیوگان اور مساکین کی کفالت کرنے والا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے یا دن کو روزہ اور رات بھر قیام کرنے والے کی طرح ہے۔“ مسائل : 1۔ یتیموں کی اصلاح کرنا نیکی کا کام ہے۔ 2۔ ان کے ساتھ مل جل کر رہنے اور کھانے میں کوئی حرج نہیں۔ 3۔ اللہ تعالیٰ فساد کرنے والے اور اصلاح کرنے والے کو جانتا ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر غالب اور حکمت والا ہے۔ تفسیربالقرآن : یتیموں کے حقوق کا تحفظ : 1۔ یتیم تمہارے بھائی ہیں۔ (البقرۃ :220) 2۔ یتیموں کی اصلاح میں ہی بہتری ہے۔ (البقرۃ :220) 3۔ یتیم کو جھڑکنے کی ممانعت ہے۔ (الضحیٰ :9) 4۔ یتیموں کے سمجھ دار ہونے پر ان کا مال ان کے حوالے کرنا چاہیے۔ (النساء :6) 5۔ مال حوالے کرتے وقت گواہ بنانے چاہییں۔ (النساء :6) 6۔ یتیم کا مال کھانا بہت بڑا گناہ ہے۔ (النساء :2)