يَا يَحْيَىٰ خُذِ الْكِتَابَ بِقُوَّةٍ ۖ وَآتَيْنَاهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا
اے یحیٰی! میری کتاب (١) کو مضبوطی سے تھام لے اور ہم نے اسے لڑکپن ہی سے دانائی عطا فرما دی (٢)
فہم القرآن: ربط کلام : حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کو ہدایات : قرآن مجید کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یحییٰ (علیہ السلام) کو بچپن میں نبوت کے منصب پر فائز کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے کتاب سے سرفراز فرمایا تھا۔ کیونکہ اس آیت میں ارشاد ہوا ہے کہ ہم نے اسے بچپن میں ہی حکمت و دانائی اور قوت فیصلہ عنایت کی تھی اور انھیں حکم دیا تھا کہ کتاب اللہ کو فکری اور عملی طور پر پوری قوت کے ساتھ پکڑے رکھنا یعنی اس کے ابلاغ، نفاذ اور اس پر عمل کرنے میں آپ سے دانستہ طور پر سستی اور کوتاہی سرزد نہیں ہونا چاہیے۔ قرآن مجید کے ظاہری الفاظ سے تو یہی پتہ چلتا ہے کہ یحییٰ (علیہ السلام) کو بچپن میں یہ چیزیں عنایت کی گئیں تھیں۔ قریب قریب اس طرح کے الفاظ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں بھی استعمال ہوئے ہیں۔ ان کے بارے میں یہ ارشاد ہے کہ ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو بچپن میں ہی رشد و ہدایت سے سرفراز فرمایا تھا اور ہم ابراہیم کو اچھی طرح جاننے والے ہیں۔ (الانبیاء :51) اس کا مفہوم نبی (ﷺ) کے فرمان سے سمجھنا چاہیے آپ نے فرمایا کہ مجھے اس وقت نبوت عطا کی گئی تھی جب آدم (علیہ السلام) کا خمیر اٹھایا جا رہا تھا۔ حالانکہ نبی اکرم (ﷺ) پر پہلی وحی ٤٠ سال کے بعد نازل ہوئی تھی۔ لہٰذا یہ بات حقیقت کے قریب لگتی ہے کہ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کو بچپن کی عمر میں نہیں، بلکہ باضابطہ طور پر بھرپور جوانی کے عالم میں نبوت سے سرفراز کیا گیا تھا۔ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کے بارے میں روایات موجود ہیں کہ انھیں 35سال کے بعد کتاب عنایت کی گئی تھی۔ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کی کتاب میں انہی باتوں پر زور دیا گیا تھا جو ہمیشہ سے آسمانی کتب اور ہر نبی کی نبوت کا مرکزی پیغام رہا ہے۔ کیونکہ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کے نبی ہیں جن کی شریعت کے بنیاد ی اصولوں کا تذکرہ سورۃ البقرۃ میں یوں کیا گیا ہے۔ ﴿وَإِذْ أَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْ إِسْرَاءِیْلَ لَا تَعْبُدُوْنَ إِلَّا اللّٰہَ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا وَذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتَامٰی وَالْمَسَاکِیْنِ وَقُوْلُوا للنَّاسِ حُسْنًا وَأَقِیمُوْا الصَّلَاۃَ وَاٰتُوا الزَّکَاۃَ ثُمَّ تَوَلَّیْتُمْ إِلَّا قَلِیْلاً مِنْکُمْ وَأَنْتُمْ مُعْرِضُوْنَ﴾ [ البقرۃ:83] ” اور یاد کرو جب ہم نے بنی اسرائیل سے پختہ وعدہ لیا تھا کہ نہ عبادت کرنا اللہ کے سوا۔ اور ماں باپ سے اچھا سلوک کرنا نیز رشتہ داروں‘ یتیموں اور مسکینوں سے بھی حسن سلوک کا مظاہرہ کرنا، لوگوں سے اچھی باتیں کہنا اور نماز قائم رکھنا اور زکوٰۃ دیتے رہنا مگر سب نے منہ موڑ لیا صرف چند آدمی تم سے ثابت قدم رہے۔ تم تو رو گردانی کرنے والے ہو۔“ جب حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کو منصب نبوت پر فائز کیا گیا تو انہیں کتاب پر پوری تندہی سے عمل کرنے کی تلقین کی گئی آپ کی زندگی بتاتی ہے کہ آپ نے اس حکم خداوندی کی تعمیل کا حق ادا کردیا۔ دورافتادہ آبادیوں، صحراؤں اور دشوار گزار پہاڑوں میں جا جا کر لوگوں کو پیغام حق سنایا اور انہیں گناہوں سے تائب ہونے کی ترغیب دی۔ بے شمار لوگ آپ کی تبلیغ کی برکت سے راہ حق پر آگئے۔ فسق وفسجور کی زندگی ترک کرکے زہدو تقویٰ کو اپنا شعار بنایا۔ قوم کے ہر طبقہ کو آپ نے ان کی کوتاہیوں اور خامیوں پر متنبہ کیا۔ بنی اسرائیل کے جو علماء دنیا کی محبت میں گرفتار ہوچکے تھے اور احکام الٰہی کی تحریف میں کوئی جھجک محسوس نہ کرتے تھے انہیں بڑی سختی سے جھنجھوڑا۔ (أَنَّ الْحَارِثَ الأَشْعَرِیَّ حَدَّثَہُ أَنَّ النَّبِیَّ (ﷺ) قَالَ إِنَّ اللَّہَ أَمَرَ یَحْیَی بْنَ زَکَرِیَّا بِخَمْسِ کَلِمَاتٍ أَنْ یَعْمَلَ بِہَا وَیَأْمُرَ بَنِی إِسْرَائِیلَ أَنْ یَعْمَلُوا بِہَا وَإِنَّہُ کَادَ أَنْ یُبْطِءَ بِہَا فَقَال عیسَی إِنَّ اللَّہَ أَمَرَکَ بِخَمْسِ کَلِمَاتٍ لِتَعْمَلَ بِہَا وَتَأْمُرَ بَنِی إِسْرَاءِیلَ أَنْ یَعْمَلُوا بِہَا فَإِمَّا أَنْ تَأْمُرَہُمْ وَإِمَّا أَنَا آمُرُہُمْ فَقَالَ یَحْیَی أَخْشَی إِنْ سَبَقْتَنِی بِہَا أَنْ یُخْسَفَ بِی أَوْ أُعَذَّبَ فَجَمَعَ النَّاسَ فِی بَیْتِ الْمَقْدِسِ فَامْتَلأَ الْمَسْجِدُ وَقَعَدُوا عَلَی الشُّرَفِ فَقَالَ إِنَّ اللَّہَ أَمَرَنِی بِخَمْسِ کَلِمَاتٍ أَنْ أَعْمَلَ بِہِنَّ وَآمُرَکُمْ أَنْ تَعْمَلُوا بِہِنَّ أَوَّلُہُنَّ أَنْ تَعْبُدُوا اللَّہَ وَلاَ تُشْرِکُوا بِہِ شَیْئًا وَإِنَّ مَثَلَ مَنْ أَشْرَکَ باللَّہِ کَمَثَلِ رَجُلٍ اشْتَرَی عَبْدًا مِنْ خَالِصِ مَالِہِ بِذَہَبٍ أَوْ وَرِقٍ فَقَالَ ہَذِہِ دَارِی وَہَذَا عَمَلِی فَاعْمَلْ وَأَدِّ إِلَیَّ فَکَانَ یَعْمَلُ وَیُؤَدِّی إِلَی غَیْرِ سَیِّدِہِ فَأَیُّکُمْ یَرْضَی أَنْ یَکُونَ عَبْدُہُ کَذَلِکَ وَإِنَّ اللَّہَ أَمَرَکُمْ بالصَّلاَۃِ فَإِذَا صَلَّیْتُمْ فَلاَ تَلْتَفِتُوا فَإِنَّ اللَّہَ یَنْصِبُ وَجْہَہُ لِوَجْہِ عَبْدِہِ فِی صَلاَتِہِ مَا لَمْ یَلْتَفِتْ وَآمُرُکُمْ بالصِّیَامِ فَإِنَّ مَثَلَ ذَلِکَ کَمَثَلِ رَجُلٍ فِی عِصَابَۃٍ مَعَہُ صُرَّۃٌ فیہَا مِسْکٌ فَکُلُّہُمْ یَعْجَبُ أَوْ یُعْجِبُہُ ریحُہَا وَإِنَّ ریح الصَّائِمِ أَطْیَبُ عِنْدَ اللَّہِ مِنْ ریحِ الْمِسْکِ وَآمُرُکُمْ بالصَّدَقَۃِ فَإِنَّ مَثَلَ ذَلِکَ کَمَثَلِ رَجُلٍ أَسَرَہُ الْعَدُوُّ فَأَوْثَقُوا یَدَہُ إِلَی عُنُقِہِ وَقَدَّمُوہُ لِیَضْرِبُوا عُنُقَہُ فَقَالَ أَنَا أَفْدِیہِ مِنْکُمْ بالْقَلِیلِ وَالْکَثِیرِفَفَدَی نَفْسَہُ مِنْہُمْ وَآمُرُکُمْ أَنْ تَذْکُرُوا اللَّہَ فَإِنَّ مَثَلَ ذَلِکَ کَمَثَلِ رَجُلٍ خَرَجَ الْعَدُوُّ فِی أَثَرِہِ سِرَاعًا حَتَّی إِذَا أَتَی عَلَی حِصْنٍ حَصِینٍ فَأَحْرَزَ نَفْسَہُ مِنْہُمْ کَذَلِکَ الْعَبْدُ لاَ یُحْرِزُ نَفْسَہُ مِنَ الشَّیْطَانِ إِلاَّ بِذِکْرِ اللَّہِ قَال النَّبِیُّ (ﷺ) وَأَنَا آمُرُکُمْ بِخَمْسٍ اللَّہُ أَمَرَنِی بِہِنَّ السَّمْعُ وَالطَّاعَۃُ وَالْجِہَادُ وَالْہِجْرَۃُ وَالْجَمَاعَۃُ فَإِنَّہُ مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَۃَ قیدَ شِبْرٍ فَقَدْ خَلَعَ رِبْقَۃَ الإِسْلاَمِ مِنْ عُنُقِہِ إِلاَّ أَنْ یَرْجِعَ وَمَنِ ادَّعَی دَعْوَی الْجَاہِلِیَّۃِ فَإِنَّہُ مِنْ جُثَا جَہَنَّمَ فَقَالَ رَجُلٌ یَا رَسُول اللَّہِ وَإِنْ صَلَّی وَصَامَ قَالَ وَإِنْ صَلَّی وَصَامَ فَادْعُوا بِدَعْوَی اللَّہِ الَّذِی سَمَّاکُمُ الْمُسْلِمِینَ الْمُؤْمِنِینَ عِبَاد اللَّہِ) [ رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ فِی مَثَلِ الصَّلاَۃِ وَالصِّیَامِ وَالصَّدَقَۃِ] ” حارث الاشعری نبی (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے یحییٰ بن زکریا کو پانچ کلمات پر عمل کرنے کا اور بنی اسرائیل کو عمل کروانے کا حکم دیا ہے۔ قریب تھا کہ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) اس میں تاخیر کرتے تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے انہیں یاد دلاتے ہوئے کہا کہ اللہ نے آپ کو پانچ کلمات سونپے ہیں اور ان پر عمل کرنے کا اور عمل کروانے کا حکم دیا ہے۔ یا تو ان کلمات سے آپ لوگوں کو آگاہ کریں یا میں کرتا ہوں مجھے ڈر ہے کہیں سستی کی بنیاد پر اللہ کا عذاب ہم پر مسلط نہ ہوجائے یا اللہ ہمیں زمین میں نہ دھنسا دے۔ انہوں نے لوگوں کو بیت المقدس میں جمع کیا جب مسجد لوگوں سے بھر گئی تو بلند مقام پر بیٹھ کر انہیں خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے کہا اللہ نے مجھے پانچ کلمات پر عمل کرنے کا حکم دیا ہے اور ذمہ داری عائد کی ہے کہ تمہیں بھی ان پر عمل کرنے کا حکم دوں۔ وہ پانچ باتیں یہ ہیں۔ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرنی اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرانا جو شخص اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا ہے اس کی مثال اس آدمی کی ہے جس نے اپنے خالص مال سونے اور چاندی سے ایک غلام خریدا اور اسے کہا یہ میرا گھر ہے اور یہ میرا کام ہے۔ کام کرو اور اس کا معاوضہ مجھے دو۔ وہ غلام مزدوری کر کے مزدوری اپنے مالک کے سوا کسی اور آدمی کو دیتا ہے۔ تم میں ایسے غلام پر کون راضی ہوگا؟ اسی طرح اللہ نے تمہیں نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے۔ جب تم نماز پڑھو تو نماز میں ادھر ادھر نہ جھانکو۔ جب تک کوئی انسان پوری توجہ سے نماز پڑھتا رہتا ہے اللہ اس کی طرف پوری طرح متوجہ رہتے ہیں، اور میں تمہیں روزے رکھنے کا حکم دیتا ہوں روزہ رکھنے والے کی مثال اس آدمی کی سی ہے جو کسی جماعت کے ساتھ ہو اور اس کے پاس کستوری کی ایک تھیلی ہو۔ جماعت میں سے ہر آدمی اس کی خوشبو کو پسند کرے گا اور وہ بھی اسے پسند کرے گا اور بے شک روزے دار کے منہ کی خوشبو۔ اللہ کے ہاں کستوری سے بڑھ کر ہے۔ میں تمہیں صدقہ دینے کا حکم دیتا ہوں بے شک جو آدمی صدقہ دیتا ہے اس کی مثال اس آدمی کی سی ہے جس کو دشمن نے قید کرلیا اور مضبوطی سے اس کے ہاتھ اس کی گردن پر باندھ دیے اور اس کی گردن تن سے جدا کرنے کے لیے آگے بڑھے تو اس نے کہا میں تمہیں تھوڑا بہت فدیہ دیتا ہوں۔ وہ اس سے فدیہ قبول کرلیتا ہے۔ اور میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ تم ہر حال میں اللہ کو یاد رکھو بے شک جو آدمی اللہ کے ذکر میں مصروف رہتا ہے اس کی مثال اس آدمی کی سی ہے جس کی کھوج میں دشمن لگا ہوا ہے یہاں تک کہ وہ قلعے میں داخلہ ہو کر اپنے اپنا کو بچا لیتا ہے اسی طرح انسان اپنے آپ کو اللہ کے ذکر کے بغیر شیطان سے نہیں بچا سکتا۔ نبی (ﷺ) نے فرمایا میں بھی تمہیں پانچ چیزوں کا حکم دیتا ہوں اور یہ پانچ چیزوں وہ ہیں جن کا اللہ نے مجھے حکم دیا ہے 1 امیر کی بات سننا 2 اطاعت امیر 3 جہاد 4 ہجرت 5 جماعت کے ساتھ منسلک رہنا۔ جو آدمی جماعت کو چھوڑ کر ایک بالشت ادھر ادھر ہوا اس نے اپنی گردن سے اسلام کے طوق کو اتار دیا الا کہ وہ جماعت میں واپس آ جائے اور جس نے جاہلیت کا دعویٰ کیا وہ جہنم کا انگارا بنے گا۔ ایک آدمی نے کہا اے اللہ کے رسول (ﷺ) اگرچہ وہ نماز پڑھتا ہو روزہ رکھتا ہو۔ آپ نے فرمایا اگرچہ نماز روزے کا پابند ہو۔ میں تمہیں ان چیزوں کی دعوت دیتا ہوں جن کی دعوت دینے کا اللہ نے مجھے حکم دیا ہے۔ اللہ وہ ہے جس نے تمہارا نام مسلمان، مؤمن اور اللہ کے بندے رکھا ہے۔“ کتاب اللہ کے بارے میں سرور دوعالم (ﷺ) کی اپنی امت کو ہدایت : ” حضرت مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ انہیں یہ حدیث پہنچی کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا میں تم میں دوچیزیں چھوڑے جا رہا ہوں جب تک ان کو مضبوطی سے تھامے رکھو گے کبھی گمراہ نہیں ہو گے ایک اللہ کی کتاب ہے اور دوسری اس کے نبی کی سنت۔“ [ موطا امام مالک : باب النَّہْیِ عَنِ الْقَوْلِ بالْقَدَرِ]