هيعص
کہیعص
فہم القرآن: (آیت 1 سے 2) ربط کلام : سورۃ مریم بھی حروف مقطعات سے شروع ہوئی ہے۔ ان کے بارے میں پہلے بیان ہوچکا ہے کہ حروف مقطعات کا حقیقی معنٰی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ جن لوگوں نے بزرگوں کے اقوال سے ان کا معنٰی متعین کرنے کی کوشش کی ہے اسے فکری کاوش کے سوا کوئی حیثیت نہیں دی جا سکتی۔ حقیقت یہی ہے کہ اس کا معنٰی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ مکہ معظمہ میں مسلمانوں کے حالات اس قدر مخدوش ہوچکے تھے کہ دور دور تک روشنی کی کوئی کرن دکھائی نہیں دیتی تھی جس سے یہ واضح ہو کہ اللہ کی توحید کا غلبہ اور اسلام کی تحریک کامیاب ہو سکے گی۔ ان حالات میں سورۃ مریم نازل ہوئی جس کی ابتداء اس بات سے کی جا رہی ہے کہ اے نبی (ﷺ) ! ہم آپ کے سامنے زکریاکا واقعہ ذکر کرتے ہیں جو میرا بندہ تھا۔ آپ کے رب نے اس وقت اس پر اپنی رحمت اور شفقت کا نزول فرمایا جب وہ اپنی عمر کے اعتبار سے اولاد کے قابل نہ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے بڑھاپے میں بیٹا عنایت فرمایا۔ آپ بھی میرے بندے اور رسول ہیں۔ اس لیے آپ کو اسباب کے فقدان اور ظاہری حالات سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ اسباب آپ کے رب کے محتاج اور حالات اس کے حکم کے تابع ہیں۔ عنقریب وقت آئے گا کہ اللہ تعالیٰ توحید کے منکروں، اسلام کے مخالفوں اور آپ کے دشمنوں کو ناکام اور آپ کو دنیا اور آخرت کی کامیابیوں سے سرفراز فرمائے گا۔ سیدنا زکریا (علیہ السلام) قرآن حکیم حضرت زکریا (علیہ السلام) کا ذکر خیر چار سورتوں میں سات مرتبہ آیا ہے جن کے حوالے درج ذیل ہیں : سورۃ آل عمران : 37تا 41 الانعام : 85 مریم : 2تا 11 الانبیاء : 89۔ 90 حضرت زکریا (علیہ السلام) کا پیشہ : (عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) قَالَ کَانَ زَکَرِیَّا نَجَّارًا) [ رواہ المسلم : کتاب الانبیاء] ” حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا زکریا (علیہ السلام) نجاری کا پیشہ کرتے تھے۔“ مسائل: 1۔ حروف مقطعات کا معنٰی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ 2۔ حضرت زکریا (علیہ السلام)، حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کے والد گرامی اور اپنے وقت کے عظیم نبی تھے۔