وَيَوْمَ يَقُولُ نَادُوا شُرَكَائِيَ الَّذِينَ زَعَمْتُمْ فَدَعَوْهُمْ فَلَمْ يَسْتَجِيبُوا لَهُمْ وَجَعَلْنَا بَيْنَهُم مَّوْبِقًا
اور جس دن وہ فرمائے گا کہ تمہارے خیال میں جو میرے شریک تھے انھیں پکارو! یہ پکاریں گے لیکن ان میں سے کوئی بھی جواب نہ دے گا ہم ان کے درمیان ہلاکت کا سامان کردیں گے (١)۔
فہم القرآن : (آیت 52 سے 53) ربط کلام : غیر اللہ کو پکارنا شیطان کی شیطنت کا نتیجہ ہے کہ لوگ غیر اللہ کو پکارتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا قیامت کے دن انجام۔ غیر اللہ کو پکارنے والوں کو قیامت کے دن رب ذوالجلال آواز دے گا۔ تم جن کو میرا شریک سمجھ کر پکارتے تھے۔ آج وہ تمہاری مدد کرسکتے ہیں تو انہیں بلاؤ۔ مشرکین آواز پہ آواز دیں گے لیکن دنیا میں جن کو مشکل کشا اور حاجت روا سمجھ کر ان کے حضور قیام، رکوع، سجدہ، اعتکاف کرتے، ہاتھ جوڑتے اور نذرانہ پیش کرتے تھے۔ وہ ان کو کچھ جواب نہ دیں گے۔ جب ان کو آواز پہ آواز دے رہے ہوں گے تو اچانک جہنم ان کے سامنے کردی جائے گی۔ اسے دیکھتے ہی مشرکین کو یقین ہوجائے گا کہ وہ جہنم میں پھینکے جانے والے ہیں۔ اس سے بچنے کے لیے ان کے پاس کوئی راستہ نہ ہوگا۔ جہنم کی آگ گمراہ پیروں اور مریدوں کے درمیان اس لیے حائل کردی جائے گی تاکہ ان کے دکھ میں اور اضافہ ہوجائے۔ کیونکہ وہ تو امید لگائے بیٹھے تھے کہ مشکل کشاؤں کو اس لیے ہمارے قریب کیا گیا ہے تاکہ وہ ہماری مدد کرسکیں۔ جب وہ اپنی امیدوں میں خوش، خوش دکھائی دیں گے تو اچانک ان کے درمیان جہنم کی آگ کھڑی کر کے گمراہ پیروں اور مریدوں کو آگ میں جھونک دیا جائے گا۔ البتہ جن بزرگوں نے اپنی زندگی میں لوگوں کو شرک وبدعت سے منع کیا لیکن ان کے مرنے کے بعد لوگوں نے ان کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھ کر ان کے مزارات کو عبادت گاہ بنالیا ایسے بزرگوں کو جہنم سے بچاکر جنت میں داخل کیا جائے گا۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) صَارَتِ الأَوْثَانُ الَّتِی کَانَتْ فِی قَوْمِ نُوحٍ فِی الْعَرَبِ بَعْدُ، أَمَّا وُدٌّ کَانَتْ لِکَلْبٍ بِدَوْمَۃِ الْجَنْدَلِ، وَأَمَّا سُوَاعٌ کَانَتْ لِہُذَیْلٍ، وَأَمَّا یَغُوثُ فَکَانَتْ لِمُرَادٍ ثُمَّ لِبَنِی غُطَیْفٍ بالْجُرُفِ عِنْدَ سَبَا، وَأَمَّا یَعُوقُ فَکَانَتْ لِہَمْدَانَ، وَأَمَّا نَسْرٌ فَکَانَتْ لِحَمِیْرِ، لآلِ ذِی الْکَلاَعِ أَسْمَاءُ رِجَالٍ صَالِحِینَ مِنْ قَوْمِ نُوحٍ، فَلَمَّا ہَلَکُوا أَوْحَی الشَّیْطَانُ إِلَی قَوْمِہِمْ أَنِ انْصِبُوا إِلَی مَجَالِسِہِمُ الَّتِی کَانُوا یَجْلِسُونَ أَنْصَابًا، وَسَمُّوہَا بِأَسْمَاءِہِمْ فَفَعَلُوا فَلَمْ تُعْبَدْ حَتّٰی إِذَا ہَلَکَ أُولَئِکَ وَتَنَسَّخَ الْعِلْمُ عُبِدَتْ )[ رواہ البخاری : باب ﴿وَدًّا وَلَا سُوَاعًا وَلَا يَغُوثَ وَيَعُوقَ﴾] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں جن بتوں کی پوجا نوح (علیہ السلام) کی قوم کیا کرتی تھی بعد میں انہیں لوگ عرب میں لے آئے۔ ودّ کو دومۃ الجندل والوں نے اپنا معبود بنا لیا اور سواع کو ھذیل والوں نے، یغوث کو مراد قبیلے والوں نے اور ان کے بعد بنی غطیف نے سبا بستی میں جرف مقام پر اور یعوق کو ہمدان والوں نے اور نسر کو قبیلہ حمیر والوں نے، جوذی الکلاع کی اولاد تھے اپنا معبود بنا لیا۔ یہ تمام نام نوح (علیہ السلام) کی قوم کے برگزیدہ لوگوں کے تھے، جب وہ فوت ہوگئے تو شیطان نے ان کی قوم کو القاء کیا۔ انہوں نے ان کے مجسموں کو اس جگہ پر نصب کیا، جہاں وہ بیٹھا کرتے تھے اور ان کے نام نیک لوگوں کے ناموں کی نسبت سے رکھ دیئے گئے، پہلے لوگ ان کی عبادت نہیں کیا کرتے تھے جبیہ لوگ مر گئے تو ان کے بعدوالوں نے ان مورتیوں کی عبادت شروع کردی۔“ مسائل: 1۔ قیامت کے دن مشرکوں سے کہا جائے گا کہ اپنے مشکل کشاؤں کو بلاؤ۔ 2۔ جہنم سے مجرم بچ نہیں پائیں گے۔ 3۔ مشرک اپنے معبودوں کو بلائیں گے لیکن ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں پائیں گے۔ تفسیر بالقرآن: قیامت کے دن مشرکوں کو حکم ہوگا کہ اپنے شریکوں کو بلاؤ: 1۔ اس دن اللہ فرمائے گا بلاؤ! میرے شرکاء کو جن کو تم میرا شریک سمجھتے تھے۔ وہ انہیں بلائیں گے تو وہ جواب نہیں دیں گے۔ (الکھف :52) 2۔ پھر ہم مشرکوں سے کہیں گے تمہارے شریک کہاں ہیں جن کو تم شریک تصوّر کرتے تھے۔ (الانعام :22) 3۔ اس دن ہم انہیں آواز دیں گے کہ میرے شریک کہاں ہیں ؟ جنہیں تم شریک بناتے تھے۔ (القصص :63) 4۔ کیا ان کے شرکاء ہیں تو وہ اپنے شریکوں کو لائیں اگر وہ سچے ہیں۔ (القلم :41) 5۔ قیامت کے دن ظلم کرنے والوں اور ان کے ہم جنس اور جن کی وہ پوجا کرتے تھے سب کو جمع کیا جائے گا۔ (الصٰفٰت :22)