وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۚ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا
اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے تم اس کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا۔ اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اف تک نہ کہنا، نہ انھیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات کرنا (١)
فہم القرآن : (آیت 23 سے 25) ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی توحید اور عبادت کے بعد والدین کا احترام اور تابعداری کرنے کا حکم۔ البقرۃ آیت ٨٣ کی تفسیر کرتے ہوئے عرض کیا ہے : ہر دور میں دین کے بنیادی ارکان و احکام ایک اور ان کی ترتیب بھی ایک جیسی ہی رہی ہے۔ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی خالص عبادت کرنا ہے۔ عبادت صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے۔ اللہ کے حق کے بعد والدین کی تابعداری اور ان کے ساتھ احسان کرنا ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ رب اور خالق ہے لیکن اس نے اپنی تخلیق اور ربوبیت کا ذریعہ والدین کو بنایا ہے۔ اس لیے اپنی ذات کے بعد اس نے اس مقدس رشتہ کو تقدیس و تکریم دیتے ہوئے ہدایات فرمائیں کہ اولاد کو چاہیے کہ اپنے والدین کے ساتھ ہر دم اچھا سلوک کرتی رہے۔ نبی کریم (ﷺ) نے قرآن مجید کی اسی ترتیب کا خیال رکھتے ہوئے ارشادات فرمائے : (عن عَبْدِ اللّٰہِ (رض) قَالَ سَأَلْتُ النَّبِیَّ (ﷺ) أَیُّ الْعَمَلِ أَحَبُّ إِلَی اللّٰہِ قَال الصَّلاَۃُ عَلَی وَقْتِہَاقَالَ ثُمَّ أَیُّ قَالَ ثُمَّ بِرُّ الْوَالِدَیْنِ قَالَ ثُمَّ أَیُّ قَالَ الْجِہَادُ فِی سَبِیل اللّٰہِ) [ رواہ البخاری : کتاب مواقیت الصلوٰۃ] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں میں نے رسول اکرم (ﷺ) سے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے زیادہ پسندیدہ عمل کون سا ہے ؟ آپ نے فرمایا : نماز وقت پر ادا کرنا۔ پھر پوچھا تو فرمایا : والدین کے ساتھ اچھاسلوک کرنا۔ اس کے بعد پوچھنے پر آپ نے فرمایا اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔“ (عَنْ بَہْزِ بْنِ حَکِیمٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ جَدِّہِ قَالَ قُلْتُ یَا رَسُول اللَّہِ (ﷺ) مَنْ أَبَرُّ قَالَ أُمَّکَ ثُمَّ أُمَّکَ ثُمَّ أُمَّکَ ثُمَّ أَبَاکَ ثُمَّ الأَقْرَبَ فَالأَقْرَبَ)[ رواہ ابوداؤد : کتاب الأدب، باب فی برالوالدین] ” بہزبن حکیم اپنے باپ سے اور وہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا : میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! میں کس سے اچھا سلوک کروں ؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا : اپنی ماں سے، پھر اپنی ماں سے، پھر اپنی ماں سے، پھر اپنے باپ سے اور پھر قریبی رشتہ داروں سے۔“ والدہ کی خدمت پہلے کیوں ؟ ﴿وَوَصَّیْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ إِحْسَانًا حَمَلَتْہُ أُمُّہُ کُرْہًا وَوَضَعَتْہُ کُرْہًا وَحَمْلُہُ وَفِصَالُہُ ثَلَاثُوْنَ شَہْرًا حَتّٰی إِذَا بَلَغَ أَشُدَّہُ وَبَلَغَ أَرْبَعِیْنَ سَنَۃً قَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِیْ أَنْ أَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیْ أَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاہُ وَأَصْلِحْ لِیْ فِیْ ذُرِّیَّتِیْ إِنِّیْ تُبْتُ إِلَیْکَ وَإِنِّیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ﴾[ الاحقاف :15] ” ہم نے انسان کو حکم دیا کہ وہ اپنے والدین سے اچھا سلوک کر ے۔ اس کی ماں نے مشقت سے اسے پیٹ میں رکھا اور پھر مشقت سے اسے جنا۔ اس کے حمل اور دودھ چھڑانے میں تیس ماہ لگے۔ جب وہ اپنی بھر پور جوانی کو پہنچا اور چالیس سال کا ہوا تو کہنے لگا۔ اے میرے رب ! مجھے تو فیق دے کہ میں تیرے احسان کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کیا۔ یہ کہ میں نیک اعمال کروں جو تجھے پسند ہوں اور میری اور میری اولاد کی اصلاح فرما! میں تیرے حضور توبہ کرتا ہوں اور یقیناً میں فرمانبر دار ہوں۔“ اللہ تعالیٰ نے والدین کا احترام اور ان کی تابعداری کے لیے قرآن مجید میں پانچ الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ جن کا مختصر مفہوم پیش خدمت ہے۔ 1۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا : احسان کا لفظ حقوق العباد کے متعلق استعمال کیا جائے تو اس کا معنیٰ ہے کہ کسی کی بھلائی کے بدلہ کے بغیر اور اس کے ساتھ احسان کا رویہ اختیار کیا جائے۔ اگر عبادت کے لیے استعمال ہو تو احسان کا معنیٰ یکسوئی سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا : (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ کَان النَّبِیُّ (ﷺ) بَارِزًا یَوْمًا للنَّاسِ، فَأَتَاہُ جِبْرِیلُ فَقَالَ .. .. مَا الإِحْسَانُ قَالَ أَنْ تَعْبُدَ اللَّہَ کَأَنَّکَ تَرَاہُ، فَإِنْ لَمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَإِنَّہُ یَرَاکَ) [رواہ البخاری : کتاب الایمان] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم (ﷺ) لوگوں میں تشریف فرماتھے۔ آپ کے پاس جبریل (علیہ السلام) آئے۔ انہوں نے آپ (ﷺ) سے پوچھا احسان کیا ہے ؟ آپ نے جواب دیا کہ تو اللہ کی عبادت اس طرح کرے گویا کہ اسے دیکھ رہا ہے، اگر یہ نہیں ہوسکتا تو یہ خیال کرے کہ اللہ تعالیٰ تجھے دیکھ رہا ہے۔“ 2۔ والدین کو ” اُف“ کا لفظ کہنے اور ڈانٹنے کی ہرگز اجازت نہیں : والدین کو ان کی عمر کے کسی حصہ میں بھی اف کہنے اور ڈانٹ پلانے کی اجازت نہیں۔ جب وہ بڑھاپا کی عمر میں داخل ہوجائیں تو بالخصوص ان کے سامنے ان کی کسی حرکت اور عادت پر اف کہنا یعنی تاسف کا اظہار کرنا یا کرخت آواز سے بولنا ہرگز جائز نہیں۔ بڑھاپے میں والدین اکثر طور پر اولاد کے محتاج ہوجاتے ہیں۔ محتاجی اور جسمانی ضعف کی وجہ سے ان کا دل انتہائی حساس ہوجاتا ہے۔ جس کی وجہ سے ” اُف“ کا لفظ بھی ان کے کلیجہ پر نشتر بن کر اترتا ہے۔ اس لیے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کا ارشاد ہے کہ اگر عربی میں اس سے بھی کوئی ہلکا لفظ ہوتا تو وہ بھی یہاں استعمال کیا جاتا۔ لہٰذا اولاد کو چاہیے کہ ماں باپ کی کسی خطا اور کمزوری پر ایسا انداز نہ اپنائے۔ جس سے ان کے دل کو دکھ پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ 3۔ قول کریم اختیار کرنا : والدین کے مرتبہ و مقام اور ان کے احترام و اکرام کی خاطر مزید ارشاد ہوا۔ کہ ناصرف ان کے سامنے ” اُف“ کہنے سے اجتناب کرنا ہے بلکہ جب ان کے ساتھ بات کی جائے تو اس میں ادب و احترام، محبت و عقیدت، نرمی اور شفقت کا پہلو غالب ہونا چاہیے تاکہ ان کی کمزور طبیعت کو سہارا اور دکھی دل کوتسکین حاصل ہو۔ 4۔ والدین کے سامنے جھکتے ہوئے پیش ہونا : اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنے سوا کسی دوسرے کے سامنے عاجزی کے ساتھ پیش ہونے کا حکم نہیں دیا۔ سوائے والدین کے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے والدین کو اپنی ربوبیت کا پر تو ٹھہرایا ہے اس لیے حکم دیا ہے کہ اولاد اپنے ماں باپ کے سامنے انکساری کے ساتھ پیش ہوا کرے۔ یہاں صرف انکساری اختیار کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ مزید حکم دیا ہے کہ والدین کے سامنے انکساری، اور ادب و احترام کے کندھے جھکے ہوئے ہونے چاہییں یعنی اولاد ماں، باپ کے سامنے اس طرح پیش ہو جیسے غلام اپنے آقا کے سامنے پیش ہوتا ہے۔ 5۔ والدین کے لیے دعا کرنا : اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو صرف اپنی بار گاہ سے مانگنے کا حکم دیا ہے۔ انسان کو اپنے لیے مانگنے کے بعد جس شخصیت کے لیے مانگنے کا سب سے پہلے حکم دیا وہ والدین کی ذات ہے۔ والدین کے لیے مانگتے وقت اولاد کے جو جذبات اور احساسات ہونے چاہئیں ان کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ جب اپنے رب سے والدین کے لیے مانگو تو تمہیں اپنا بچپن یاد کرتے ہوئے ان کی شفقت، محبت اور مشقت کا پوری طرح احساس ہونا چاہیے۔ والدین کے لیے دعا کرتے وقت اللہ تعالیٰ کو جو الفاظ پسند ہیں ان کا ان الفاظ میں ذکر کیا ہے اے رب! میرے والدین پر اس طرح مہربانی اور شفقت فرما جس طرح انہوں نے مجھے شفقت اور محبت سے پالاہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ احساس دلایا جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے۔ تمہارا رب اسے خوب جانتا ہے اگر تم نیک نیتی اور اخلاص کے ساتھ صالح بننے کی کوشش کرو گے۔ تو وہ اپنی طرف رجوع کرنے والوں کو معاف کردینے والا ہے۔ گویا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک صالح شخص وہ ہوگا جو صحیح عقیدہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے اور اپنے والدین کی تابعداری کرے اور اللہ کی طرف رجوع کرنے والا ہوگا۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرنی چاہیے۔ 2۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہیے۔ 3۔ والدین کو اف تک نہیں کہنا چاہیے۔ 4۔ والدین کو جھڑکنا نہیں چاہیے۔ 5۔ والدین کے ساتھ ادب سے گفتگو کرنی چاہیے۔ 6۔ والدین کے سامنے محبت و انکساری کے ساتھ جھکے رہنا چاہیے۔ 7۔ والدین کے لیے رحمت کی دعا کرنی چاہیے۔ 8۔ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کو معاف کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن: والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم : 1۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ (بنی اسرائیل :23) 2۔ ہم نے انسان کو وصیت کی کہ وہ والدین کے ساتھ احسان کرے۔ (الاحقاف :10) 3۔ اللہ کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ نیکی کرو۔ (النساء :26) 4۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور والدین سے حسن سلوک کریں۔ (البقرۃ:83) 5۔ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ اچھاسلوک کرو۔ (الانعام :151)