ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ۖ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ۚ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ ۖ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ
اپنے رب کی راہ کی طرف لوگوں کو حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بہترین طریقے سے گفتگو کیجئے (١) یقیناً آپ کا رب اپنی راہ سے بہکنے والوں کو بھی بخوبی جانتا ہے اور وہ راہ یافتہ لوگوں سے پورا واقف ہے (٢)
فہم القرآن : ربط کلام : بے شک کسی کا دعویٰ اور موقف کتنا ہی جھوٹا ہو اس کے باوجود اسے دین کی دعوت حکمت کے اور خیر خواہی کے ساتھ دینا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (ﷺ) کو طبعًا اور فطرتًا نرم خو اور ہمدرد پیدا فرمایا تھا۔ آپ مشکلات پر صبر کرنے والے، مخالفوں کی مخالفت کا جواب خندہ روئی کے ساتھ دینے والے، اور بدترین دشمن کے ساتھ بھی اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرنے والے تھے۔ آپ (ﷺ) نے زندگی بھر کسی کو برائی کا جواب برائی سے نہیں دیا آپ کے اعلیٰ اخلاق کی قرآن مجید میں متعدد مقامات پر یوں تعریف کی گئی ہے : ” لوگو! تمہارے پاس تمھی میں سے ایک رسول آیا ہے تمہیں کوئی تکلیف پہنچے تو اسے نہایت ہی گراں گزرتی ہے وہ تمہاری کامیابی کی بہت ہی چاہت رکھتا ہے۔ مومنوں کے ساتھ نہایت مہربان اور شفقت کرنے والا ہے۔“ (التوبۃ:128) اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کو اعلیٰ اخلاق اور بے حساب صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کیا گیا لیکن اس کے باوجود آپ کو حکم ہوا کہ آپ حکمت، دانائی اور بصیرت کے ساتھ لوگوں کو دین حنیف کی طرف دعوت دیں اگر کسی وقت بحث و تکرار کی نوبت آئے تو اس میں بھی حسن اخلاق کا دامن نہ چھوڑیں۔ آخر میں فرمایا کہ آپ کا رب خوب جانتا ہے کون اس کے راستے سے بھٹک چکا اور کون ہدایت پانے والوں میں شامل ہے۔ حکمت کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ موقعہ محل اور لوگوں کی فکری استعداد کے مطابق بات کی جائے۔ اس کے ساتھ اس بات کا خیال بھی رکھا جائے کہ لوگ کس حد تک سننے میں آمادگی رکھتے ہیں۔ بالخصوص مسلمانوں کو وعظ و نصیحت کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ وعظ و نصیحت میں یہ بات بھی لازم ہے کہ خطیب کے لب و لہجہ اور انداز میں سنجیدگی، خیر خواہی اور ہمدردی کا جذبہ غالب ہو کیونکہ موعظت ایسی نصیحت کو کہتے ہیں جو سامع کے دل پر اثر انداز ہو سکے۔ (عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ (رض) قَالَ کَان النَّبِیُّ (ﷺ) یَتَخَوَّلُنَا بالْمَوْعِظَۃِ فِی الأَیَّامِ، کَرَاہَۃَ السَّآمَۃِ عَلَیْنَا) [ رواہ البخاری : باب الموعظۃ ساعۃ بعد ساعۃ ] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) کچھ دن ہمیں وعظ ونصیحت کرنا چھوڑ دیتے کہ کہیں ہم اکتا نہ جائیں۔“ (عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عُتْبَۃَ أَنَّ عَبْدَ اللَّہِ بْنَ مَسْعُودٍ (رض) قَالَ مَآ أَنْتَ بِمُحَدِّثٍ قَوْمًا حَدِیْثًا لاَ تَبْلُغُہٗ عُقُولُہُمْ إِلاَّ کَانَ لِبَعْضِہِمْ فِتْنَۃً) [ رواہ مسلم فی المقدمۃ، باب النَّہْیِ عَنِ الْحَدِیثِ بِکُلِّ مَا سَمِعَ] ” حضرت عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہتم کسی قوم کو ایسی بات نہ کہو جو ان کی سمجھ سے بالا تر ہے جو لوگوں کے لیے الجھن کا باعث بن جائے۔“ (قَالَ عَلِیٌّ حَدِّثُوا النَّاسَ بِمَا یَعْرِفُوْنَ، أَتُحِبُّوْنَ أَنْ یُّکَذَّبَ اللّٰہُ وَرَسُولُہٗ ) [ رواہ البخاری : کتاب العلمِ، باب مَنْ خَصَّ بالْعِلْمِ قَوْمًا دُونَ قَوْمٍ ] ” حضرت علی (رض) بیان کرتے ہیں کہ لوگوں کو وہ بات کہو جو وہ سمجھتے ہوں کیا تم پسند کرتے ہو کہ اللہ اور اس کے رسول کو جھٹلایا جائے۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ کے دین کی دعوت حکمت سے دینی چاہیے۔ 2۔ دین کی دعوت دیتے ہوئے نہایت اچھا طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ گمراہ اور ہدایت یافتہ لوگوں کو خوب جانتا ہے۔ تفسیر بالقرآن: داعی کے لیے ضابطۂ اخلاق : 1۔ اللہ کے دین کی طرف لوگوں کو حکمت اور اچھی نصیحت سے بلانا چاہیے۔ (النحل :125) 2۔ فرما دیجیے یہ میرا راستہ ہے میں اس کی طرف بصیرت کے ساتھ بلاتاہوں۔ (یوسف :108) 3۔ انہیں آپ کے ساتھ جھگڑا نہیں کرنا چاہیے حالانکہ آپ ان کو اپنے پروردگار کی طرف بلاتے ہیں۔ (الحج :67) 4۔ جب اللہ کے احکام آپ پر نازل ہوں تو آپ ان کی طرف لوگوں کو بلائیں۔ (القصص :78) 5۔ آپ انہیں دین حق کی طرف بلائیں اور اللہ کے حکم پر قائم رہیں۔ (الشوریٰ :15) 6۔ حضرت ابراہیم نے دعا کی کہ اے رب ان میں نبی بھیج جو ان کو علم اور عقل کی باتیں سکھلائے۔ ( البقرۃ:129) 7۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (ﷺ) کو نبوت اور حکمت عنایت فرمائی۔ ( الجمعہ :2)