سورة النحل - آیت 116

وَلَا تَقُولُوا لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هَٰذَا حَلَالٌ وَهَٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوا عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

کسی چیز کو اپنی زبان سے جھوٹ موٹ نہ کہہ دیا کرو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے کہ اللہ پر جھوٹ بہتان باندھ لو، (١) سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ پر بہتان بازی کرنے والے کامیابی سے محروم ہی رہتے ہیں۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 116 سے 118) ربط کلام : حرام کے بارے میں مزید احکامات اور یہودیوں کے کردار پر تبصرہ۔ اہل کتاب نے بالخصوص یہودیوں کے علما نے پیٹ پوجا اور معاشرے کے بڑے لوگوں کی خوشنودی کے لیے بہت سی حلال چیزوں کو حرام اور حرام کو حلال کرلیا تھا۔ جب اس جرم کی نشاندہی کی جاتی تو ان کے علما اس قدر مردہ ضمیر ہوگئے کہ اپنی حرام خوری پر پردہ ڈالنے کے لیے سرِعام یہ بات کہتے کہ یہ چیزیں اللہ تعالیٰ نے ہی حرام اور حلال قرار دی ہیں۔ اس سے منع کرتے ہوئے انہیں انتباہ کیا گیا ہے کہ اپنی مرضی سے حرام و حلال کی فہرست تیار کر کے اللہ تعالیٰ کے ذمہ نہ لگاؤ۔ یہ اللہ تعالیٰ پر صریح جھوٹ بولنے کے مترادف ہے۔ جو لوگ اپنی مرضی سے حرام کردہ چیزوں کو حلال اور حلال کو حرام قرار دے کر اللہ تعالیٰ کے ذمہ لگاتے ہیں وہ جھوٹے ہیں یقیناً وہ کبھی فلاح نہیں پائیں گے۔ یہ لوگ محض لذت دہن اور دنیا کے مفاد کے لیے ایسا کر رہے ہیں انہیں یاد ہونا چاہیے کہ دنیا اور اس کی ہر چیز آخرت کے مقابلے میں، مدت اور مقدار کے اعتبار سے عارضی اور تھوڑی ہے۔ اس کے باوجود جو لوگ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھتے ہیں ان کے لیے اذیت ناک عذاب ہوگا۔ ( عَنْ عَدِیِّ بْنِ حَاتِمٍ (رض) قَالَ أَتَیْتُ النَّبِیَّ () وَفِی عُنُقِی صَلِیبٌ مِنْ ذَہَبٍ فَقَالَ یَا عَدِیُّ اطْرَحْ عَنْکَ ہَذَا الْوَثَنَ مِنْ عُنُقِکَ قَالَ فَطَرَحْتُہٗ، وَانْتَہَیْتُ إِلَیْہِ وَہُوْ یَقْرَاأ فِیْ سُوْرَۃِ بَرَاءَ ۃَ فَقَرَاأ ہٰذِہِ الْآیَۃُ ﴿اتَّخَذُوا أَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ أَرْبَابًا مِن دُون اللَّہِ﴾ قَالَ قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، إِنَّا لَسْنَا نَعْبُدُہُمْ فَقَالَ األَیْسَ یُحرمُوْنَ مَاأَحَلَّ اللّٰہُ فَتُحَرِّمُوْنَہٗ، وَیُحِلُّوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ فَتُحِلُّوْنَہٗ ؟ قَالَ قُلْتُ بَلٰی قَالَ فَتِلْکَ عِبَادَتُہُمْ)[ تفسیر قر طبی : ج 14 رواہ الترمذی : باب وَمِنْ سُورَۃِ التَّوْبَۃِ] ” حضرت عدی (رض) بیان کرتے ہیں۔ میں نبی کریم (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہوا اور میرے گلے میں سونے کی صلیب لٹک رہی تھی۔ آپ نے فرمایا اے عدی اس بت کو اتار پھینکو تو میں نے اسے اتار پھینکا اور آپ کے قریب آگیا اور آپ سورۃ توبہ کی تلاوت فرما رہے تھے۔ آپ نے آیت تلاوت کی ﴿اتَّخَذُوا أَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ أَرْبَابًا مِن دُون اللَّہِ﴾ تو میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول ہم تو انکی عبادت نہیں کرتے تھے۔ آپ نے فرمایا کیا جسے وہ حرام قراردیتے تھے اسے تم حرام نہیں سمجھتے تھے اور جسے وہ حلال قرار دیتے اسے تم حلال نہیں سمجھتے تھے ؟ میں نے کہا ہاں ! اللہ کے رسول آپ نے فرمایا یہی تو انکی عبادت ہے۔“ یہودی حلال وحرام کی من ساختہ فہرست اللہ تعالیٰ کے ذمہ لگاتے ہیں۔ جس کی نفی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ ہم نے مذکورہ بالا چار چیزیں حرام کرنے کے ساتھ یہودیوں کی نخوت اور بغاوت کی وجہ سے یہ چیزیں بھی حرام کیں تھیں۔ جن کا تذکرہ آپ کے سامنے ہم پہلے کرچکے ہیں۔ جن کی تفصیل سورۃ الانعام کی آیت ١٤٦ میں یوں بیان کی گئی ہے۔ ہم نے یہودیوں پر ہر ناخن والا جانور حرام کیا نیز ان پر گائے اور بکری کی چربی بھی حرام کی تھی اِلَّایہ کہ ان جانوروں کی پشت اور آنتوں کے ساتھ چپکی ہو یا ہڈیوں کے ساتھ چمٹی ہوئی ہو یہ ان کی مسلسل بغاوت کی سزا تھی۔ جو کچھ ہم نے بیان کیا ہے یقیناً وہ سچ ہے۔ ہم نے یہودیوں پر کوئی زیادتی نہیں کی۔ یہ خود ہی اپنے آپ پر ظلم کرنے والے تھے۔ ظاہر ہے جو قوم اپنے آپ پر مسلسل ظلم کرنے پر تل جائے اسے کوئی بھی تباہی کے گھاٹ سے نہیں بچا سکتا۔ (عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () اِنَّ اللّٰہَ طَیِّبٌ لَا یَقْبَلُ اِلَّا طَیِّبًا وَاِنَّ اللّٰہَ اَمَرَ الْمُؤْمِنِیْنَ بِمَآ اَمَرَبِہِ الْمُرْسَلِیْنَ فَقَالَ ﴿یَآاَیُّہَا الرُّسُلُ کُلُوْا مِنَ الطَّیِّبَاتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا﴾ وَقَالَ﴿ یَا اَیُّھَاالَّذِیْنَ آمَنُوْا کُلُوْا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنٰکُمْ﴾ ثُمَّ ذَکَرَ الرَّجُلَ یُطِیْلُ السَّفَرَ اَشْعَثَ اِغْبَرَ یَمُدُّیَدَیْہِ اِلَی السَّمَآءِ یَارَبِّ وَمَطَعَمُہٗ حَرَامٌ وَّمَشْرَبُہٗ حَرَامٌ وَمَلْبَسُہٗ حَرَامٌ وَّغُذِیَ بالحَرَامِ فَاَنّٰی یُسْتَجَابُ لِذٰلِکَ) [ رواہ مسلم : باب قَبُول الصَّدَقَۃِ مِنَ الْکَسْبِ الطَّیِّبِ وَتَرْبِیَتِہَا] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا‘ بے شک اللہ تعالیٰ پاک ہے اور پاک صاف کے علاوہ کسی چیز کو قبول نہیں کرتا۔ اور اللہ تعالیٰ نے مومنین کو ان باتوں کا حکم دیا ہے جن باتوں کا اس نے اپنے رسولوں کو حکم دیا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ ” میرے رسولو! پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور صالح عمل کرو۔“ اے ایمان والو! جو رزق ہم نے تمہیں عطا کیا ہے اس میں سے پاکیزہ چیزیں کھاؤ۔“ پھر آپ نے ایک ایسے شخص کا ذکر فرمایا جو لمبا سفر طے کرتا ہے۔ پراگندہ بال ہے اور اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھائے دعا کرتا ہے۔ یارب! یارب! جب کہ اس کا کھانا حرام‘ اس کا پینا حرام‘ اس کالباس حرام اور حرام غذا سے اس کی نشوونما ہوئی اس حالت میں اس کی دعا کیسے قبول ہوسکتی ہے؟“ مسائل: 1۔ یہودیوں پر بعض چیزیں حرام کیں تھیں۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ 3۔ لوگ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں۔ 4۔ یہودیوں پر جو چیزیں حرام تھیں ان میں سے بعض کے متعلق رسول اللہ (ﷺ) کو مطلع کیا گیا۔ 5۔ اپنی طرف سے کسی چیز کو حرام وحلال قرار نہیں دینا چاہیے۔ 6۔ اللہ تعالیٰ کے ذمے جھوٹ لگانے والے فلاح نہیں پائیں گے۔ 8۔ اللہ تعالیٰ کے نا فرمانوں کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ تفسیر باالقرآن : اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنے والوں کا انجام : 1۔ اللہ کے ذمے جھوٹ لگانے والے فلاح نہیں پائیں گے ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ (النحل : 116۔117) 2۔ جو شخص اللہ پر جھوٹ باندھے گا وہی ظالم ہے۔ (آل عمران : 94) 3۔ اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے۔ (الاعراف :37) 4۔ اس شخص نے نقصان اٹھایا جس نے اللہ پر جھوٹ بولا۔ (طٰہٰ:61)