سورة النحل - آیت 115

إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ ۖ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

تم پر صرف مردار اور خون اور سور کا گوشت اور جس چیز پر اللہ کے سوا دوسرے کا نام پکارا جائے حرام ہیں (١) پھر اگر کوئی بے بس کردیا جائے نہ وہ خواہشمند ہو اور نہ حد سے گزر جانے والا ہو تو یقیناً اللہ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : پہلی آیت میں حکم ہوا ہے کہ اللہ کا دیا ہوا رزق کھاؤ اور پیوحرام خور آدمی اس فرمان سے غلط فائدہ اٹھا سکتا تھا۔ اس لیے ضروری سمجھا گیا کہ حرام کی وضاحت کردی جائے۔ مذکورہ بالا وجہ کے ساتھ حرام کردہ چیزوں کی نشاندہی اس لیے کی جا رہی ہے کہ یہودیوں نے بہت سی اللہ کی حلال کردہ چیزوں کو اپنے اوپر حرام اور حرام کردہ چیزوں کو اپنے لیے حلال کرلیا تھا۔ اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کے لیے یہودی رسول معظم (ﷺ) پر یہ بھی اعتراض کرتے تھے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ جو چیزیں تورات اور انجیل میں حلال ہیں آپ اسے حرام کیوں قرار دیتے ہیں ؟ ان کا یہ الزام تھا کہ حرام وحلال کی فہرست میں آپ نے اپنی مرضی سے ترمیم واضافہ کرلیا ہے۔ اس کی وضاحت میں مختلف سیاق و سباق کے تناظر میں چوتھی مرتبہ یہ آیت نازل کی گئی جس کے نزول کا مقصود یہ ہے کہ اے یہود ونصاریٰ ! جن حرام چیزوں کو تم اپنے لیے حرام سمجھ بیٹھے ہو یہ تورات اور انجیل میں بھی حرام تھیں۔ یہ رہتی دنیا تک سب کے لیے حرام ہیں سوائے اس شخص کے جو نہایت اضطراری حالت میں کھانے پر مجبور ہوجائے۔ اسے یقیناً اللہ تعالیٰ معاف فرمائے گا کیونکہ وہ معاف کرنے والا اور بخش دینے والاہے۔ مگر شرط یہ ہے کہ اضطراری حالت میں کھانے والا شخص نہ باغی ہو اور نہ ہی حد سے گزرنے والا ہو۔ ان شرط کے پیش نظر تمام فقہا کا اتفاق ہے کہ مجبور شخص مجبوری کے وقت حرام چیزوں کو اتنا ہی کھا سکتا ہے جس سے اس کی زندگی بچ جائے۔ (1) غیر اللہ کے نام پر ذبح کی یا پکائی ہوئی چیز اس لیے حرام کی گئی کہ یہ ایمان کے خلاف ہے۔ ایک غیرت مند ایمان دار سے یہ کس طرح توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ گردانے گئے شریک کے نام پر چڑھائی گئی چیز کھانے یا اسے استعمال کرنے پر آمادہ ہوجائے ؟ یہ نہ صرف غیرت ایمانی کے منافی ہے بلکہ فطرت بھی اس بات کو گوارا نہیں کرتی بشرطیکہ کسی کی فطرت مسخ نہ ہوچکی ہو۔ فطرت سلیم کا ثبوت اس فرمان کے نازل ہونے سے پہلے مکہ میں پایا گیا ہے۔ (عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ () أَ نَّہٗ لَقِیَ زَیْدَ بْنَ عَمْرِ و بْنِ نُفَیْلٍ بِأَسْفَلَ بَلْدَحٍ وَذَاکَ قَبْلَ أَنْ یُّنْزَلَ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ الْوَحْیُ فَقُدِّمَتْ إِلَی النَّبِیِّ () سُفْرَۃٌ فَأَبٰی أَنْ یَّأْکُلَ مِنْھَا ثُمَّ قَالَ زَیْدٌ إِنِّیْ لَسْتُ آکُلُ مِمَّا تَذْبَحُوْنَ عَلٰٓی أَنْصَابِکُمْ وَلَآ آکُلُ إِلَّا مِمَّا ذُکِرَ اسْمُ اللّٰہِ عَلَیْہِ ) [ رواہ البخا ری : کتاب الذبائح والصید، باب ماذبح علی النصب والأصنام] ” وحی نازل ہونے سے پہلے بلدح کے نشیبی علاقے میں رسول کریم (ﷺ) کی ملاقات زید بن عمر وبن نفیل سے ہوئی۔ رسول معظم (ﷺ) کے سامنے ایک دستر خوان لایا گیا جس پر غیر اللہ کے نام کی کوئی چیز تھی۔ آپ نے اسے کھانے سے انکار کردیا۔ اس کے ساتھ ہی جناب زید (رض) نے کہا کہ میں بھی ان ذبیحوں کا گوشت نہیں کھاتا جو تم اپنے آستانوں پر ذبح کرتے ہو اور نہ اس جیسی کوئی اور چیز کھاتاہوں سوائے اس چیز کے جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو۔“ ” ثابت بن ضحاک (رض) نے مجھے بیان کیا کہ رسول اللہ (ﷺ) کے دور میں ایک آدمی نے بوانہ نامی جگہ پر اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی۔ اس نے رسول اللہ (ﷺ) کے پاس آکر عرض کی میں نے نذر مانی ہے کہ میں بوانہ نامی جگہ پر اونٹ ذبح کروں گا۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا : کیا وہاں جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت تھا جس کی عبادت کی جاتی تھی؟ صحابہ نے عرض کیا نہیں۔ آپ نے پوچھا : کیا وہاں کوئی میلہ لگتا تھا؟ صحابہ نے نفی میں جواب دیا آپ نے فرمایا : اپنی نذر پوری کرو کیونکہ اللہ کی نافرمانی والی نذر پوری نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی وہ نذر پوری کرنالازم ہے جس کی انسان طاقت نہیں رکھتا۔“ [ رواہ أبوداوٗد : کتاب الأیمان وا لنذور] اللہ تعالیٰ کا رحم وکرم دیکھیے کہ ان چار چیزوں سے سختی کے ساتھ منع کرنے کے باوجود ایسے شخص کے لیے ان کو کھانے کی اجازت دی ہے جسے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھنے کا شدید خطرہ لاحق ہوگیا ہو۔ لیکن اس کے ساتھ یہ شرط رکھی کہ نہ وہ پہلے سے ان چیزوں کے کھانے کا عادی ہو اور نہ ہی حرام خوری کی طرف اس کا دل مائل ہو۔ عمومًا یہ سمجھا جاتا ہے کہ جس جانور پر ذبح کرتے وقت اللہ کے سوا کسی دوسرے کا نام لیا جائے، صرف وہی حرام ہوتا ہے۔ یہ تصور بالکل غلط ہے، کیونکہ قرآن کے الفاظ میں نہ جانور کا ذکر ہے نہ ذبح کا بلکہ ” ما“ کا لفظ ہے جس میں عمومیت پائی جاتی ہے۔ لہٰذا اس کا معنی یہ ہوگا کہ جو چیز کسی بزرگ، دیوی، دیوتا کا تقرب حاصل کرنے اور اس کے نام پر مشہور کردی جائے جیسے امام جعفر کے کو نڈے، بی بی کی صحنک، مزار کے لیے بکرا وغیرہ یہ سب چیزیں حرام ہیں۔ بعض علما لوگوں کو دھوکہ دینے کے لیے کہتے ہیں دودھ، چاول حلال ہیں اگر کھیر کسی کے نام کی پکائی جائے تو یہ حرام کیسے ہوگئی ؟ بے شک دودھ اور چاول چیز جو فی نفسہٖ حلال ہیں۔ لیکن جو کھیر غیر اللہ کے نام پر پکائی گئی ہے وہ حرام ہوگی۔ کیونکہ غیر اللہ کے نام کی نیت رکھنے سے ہی چیز حرام ہوجاتی ہے۔ ہاں اگر کوئی شخص صدقہ وخیرات یا قربانی کرتا ہے اور اس سے اس کی نیت یہ ہو کہ اس کا ثواب میرے فوت شدہ والدین یا فلاں رشتہ دار یا فلاں بزرگ کو پہنچے تو اس میں کوئی حرج نہیں، یہ نیک عمل ہے اور سنت سے ثابت ہے۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے مردار، خون، خنزیر کا گوشت حرام قرار دیا ہے۔ 2۔ غیر اللہ کے نام پر دی ہوئی نذرونیاز حرام ہے۔ 3۔ انسان کو جان کا خطرہ ہو تو مذکورہ بالا اشیا میں سے کچھ کھاسکتا ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔ تفسیر باالقرآن : قرآن مجید میں حرام کردہ چیزیں : 1۔ اس نے تم پر خون، خنزیر کا گوشت اور غیر اللہ کے نام پر دی ہوئی چیز کو حرام قرار دیا ہے۔ (النحل :110) 2۔ اللہ نے ظاہری اور باطنی فحاشی کو حرام قرار دیا ہے۔ (الاعراف :33) 3۔ تم پر مردار، خون، خنزیر کا گوشت، غیر اللہ کے نام پر دی ہوئی چیز، گلا گھٹنے، کسی ضرب سے، گر کر، سینگ لگنے سے، جس کو درندوں نے کھایا ہو اور استھانوں پر ذبح کیا ہوا حرام ہیں۔ (المائدۃ:3) 4۔ اور یہودیوں پر ناخن والے جانور حرام تھے اور گائے، بکری کی چربی بھی حرام تھی۔ (الانعام :146)