ثُمَّ إِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِينَ هَاجَرُوا مِن بَعْدِ مَا فُتِنُوا ثُمَّ جَاهَدُوا وَصَبَرُوا إِنَّ رَبَّكَ مِن بَعْدِهَا لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ
جن لوگوں نے فتنوں میں ڈالے جانے کے بعد ہجرت کی پھر جہاد کیا اور صبر کا ثبوت دیا بیشک تیرا پروردگار ان باتوں کے بعد انھیں بخشنے والا اور مہربانیاں کرنے والا ہے (١)۔
فہم القرآن : ربط کلام : اس سے پہلے آیت 106میں بے حد مجبور شخص کو جان بچانے کی اجازت دی تھی اب مظلوم لوگوں کو یہ بتایا گیا ہے کہ ممکن طور پر دین اور جان بچاکر انہیں ہجرت کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ جن لوگوں کو ناقابل برداشت اذیتوں کانشانہ بنایا جائے اس حالت میں کہ انہیں جان اور دین بچانا مشکل ہوجائے توانھیں ہجرت کرنے کی اجازت ہے تاکہ دین کی سربلندی کے لیے کوششیں جاری رکھیں اس راستہ میں انہیں جو بھی انفرادی اور اجتماعی طور پر مصائب سے واسطہ پڑے تو انہیں صبر و استقامت کا دامن تھامے رکھنا چاہیے۔ اس دوران بتقضائے بشریت غلطی ہوجائے تو اللہ تعالیٰ انھیں معاف کرنے والا نہایت مہربان ہے۔ ہجرت : اللہ تعالیٰ کی خاطر و طن عز یز چھوڑ نا اور گنا ہوں سے کنارہ کش ہونا، اللہ تعالیٰ کی بخشش اور رحمت کے حصول کے ساتھ مشکلات سے نجات پانے کا راستہ ہے۔ ہجرت بظا ہر ہر چیز کو چھوڑنا ہے۔ لیکن حقیقت میں ہر چیز کے پالینے کا نام ہے۔ ” جس نے اللہ تعالیٰ کے لیے ہجرت کی وہ اپنے لیے بڑی کشا دگی پائے گا۔“ [ النساء :100] شر یعت کی زبان میں ہجرت ہر اس کام کو چھوڑنا ہے جو اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کے راستے میں حائل اور رکا وٹ بنتاہو۔ ایسے جو انمرد کو مہاجر اور اس کے عمل کو ہجرت کہا گیا ہے۔ عرف عام میں دین و ایمان کی خا طر وطن عزیزکو چھوڑنا ہجرت کہلاتا ہے۔ یہ دنیاجب سے معر ضِ و جود میں آئی ہے اس وقت سے لے کر آج تک حق وباطل کے معرکے پیش آ رہے ہیں۔ حق وباطل کی اس معرکہ آرائی میں بے شمار ہجرتوں کی روداد تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہے۔ دنیا میں شاید ہی کوئی نبی یا رسول ہوگا جس نے اللہ کی راہ میں ہجرت نہ کی ہو۔ شاید ہی کوئی فرد یا قوم ایسی ہوگی جس کی حالت ترک وطن کے بعد بہترنہ ہوئی ہو۔ تاریخ عالم میں آپ (ﷺ) اور آپ کے رفقا سے بڑھ کر کسی پر کسمپرسی کا عالم نہ گزرا ہوگا۔ مہاجرین کے پہلے قافلے کا عالم یہ تھا کہ وہ نہ صرف گھر بار سے محروم ہوئے بلکہ انہیں شیرخوار بچوں، بوڑھے والدین، جو ان بیٹوں اور وفادار بیویوں سے الگ کردیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اخلاص اور دینی غیرت کی وجہ سے وسعت وکشادگی کے دروازے کھول دیے اور دنیاجہاں کی نعمتوں کو ان کے قدموں میں نچھاور کردیا۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) جب اپنے مواخاتی سا تھی کا یہ کہہ کر شکریہ ادا کررہے تھے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی ہر چیزکو سلامت رکھے میں آپ پر بوجھ بننے کے بجائے منڈی کی طرف جارہاہوں۔ مجھے یہاں کی منڈی کا راستہ اور طریقہ بتا دیں۔ اس تہی دامنی کے بعدوہ وقت بھی آیا کہ زکوٰ ۃ کے علاوہ لاکھوں روپے خرچ کرنے کے باوجود جب دنیا سے رخصت ہوئے۔ تو منقو لہ جائیداد کے علاوہ ان کے پاس ایک کروڑ نقد ی اور سونا چاندی موجود تھا۔ تاریخ کے اوراق پلٹنے کی بجائے افغان، کشمیر اور انڈیا سے ہجرت کرکے پاکستان آنے والوں کی اکثریت کے حالات و واقعات دیکھیں جو اس سچائی کی شہادت دے رہے ہیں کہ واقعتا ہجرت رزق کی کشادگی اور مسائل: کاتریاق ثا بت ہوتی ہے۔ اور جو شخص گناہوں سے کنارہ کش ہوتا ہے ایسے پر ہیز گار کی مشکلات اللہ تعالیٰ اپنی مہربانی سے بہت جلد حل کردیتا ہے۔ ” جو لوگ مظالم کی وجہ سے اللہ کے لیے ہجرت کرتے ہیں۔ ان کو دنیا میں بہترین جائے قیام عطا کرنے کے ساتھ آخرت میں ان کے لیے بڑا اجر ہے۔ کاش وہ اس حقیقت کو پاجائیں۔ ایسے لوگوں کے لیے بھی یہی اجر ہے جو ثابت قدمی کے ساتھ اپنے رب پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہیں۔“ [ النمل : 41تا42] ” اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے ہجرت کی اللہ کے راستے میں گھر بار چھو ڑا اور اللہ کے راستے میں جہاد کیا اور جنہوں نے مہاجرین کو پناہ دی اور ان کی مدد کی یہی لوگ سچے اور ایماند ار ہیں ان ہی کے لیے بخشش اور بہترین رزق ہے۔“ [ الانفال :47] مسائل: 1۔ دین اور جان کو بچانے کی خاطر ہجرت اختیار کرنی چاہیے۔ 2۔ دین کے لیے جہاد اور صبر کرنا چاہیے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن: مہاجرین کا بہترین انجام اور ان کے فضائل : 1۔ اللہ تعالیٰ مہاجرین کی خطاؤں کو بخشنے اور رحم فرمانے والاہے۔ (النحل :110) 2۔ اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والے اس کی رحمت کے امیدوار ہیں۔ (البقرۃ :218) 3۔ اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو بہترین ٹھکانہ میسر آئے گا۔ (النحل :41) 4۔ اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو بہترین رزق عطا کیا جائے گا۔ (الحج :58)