سورة النحل - آیت 90

إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَيَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَالْبَغْيِ ۚ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اللہ تعالیٰ عدل کا، بھلائی کا اور قرابت داروں کے ساتھ سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی کے کاموں، ناشائستہ حرکتوں اور ظلم و زیادتی سے روکتا ہے، (١) وہ خود تمہیں نصیحتیں کر رہا ہے کہ تم نصیحت حاصل کرو۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : قرآن مجید لوگوں کے لیے ہدایت کا سرچشمہ، اللہ کی رحمت اور ایمان لانے والوں کے لیے خوشخبری ہے ان لوگوں کے لیے جو درج ذیل ہدایات پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ قرآن مجید کی یہ آیات مبارکہ ان آیات میں شامل ہے جو انتہائی جامع احکامات کی حامل ہیں۔ اس کی جامعیت کے پیش نظر خلیفۃ المسلمین حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے دور حکومت میں خطباء کو ہدایت کی تھی کہ وہ اسے ہر خطبۂ جمعہ میں پڑھا کریں۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے تین باتوں کا حکم فرمایا اور تین کاموں سے منع کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ تمہیں نصیحت کی جاتی ہے تاکہ تم نصیحت قبول کرو۔ اب نصائح کا مختصر مفہوم پیش کیا جاتا ہے۔ عدل : 1۔ پہلا حکم عدل کے بارے میں دیا گیا ہے جس کا صحیح اور حقیقی معنٰی یہ ہے کہ ہر کسی کو اس کا اصولی حق دیا جائے۔ یہ عدل کا بنیادی اصول ہے۔ ہمارے ہاں عدل کے لیے انصاف کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جو شریعت کا منشا پورا نہیں کرتی۔ کیونکہ انصاف کا معنٰی ہے کسی چیز کو دو برابر حصوں میں تقسیم کرنا۔ گویا کہ کسی چیز کو نصف نصف کردینے کا نام انصاف ہے۔ اسلام کا عدالتی نظام یہ ہے کہ حقدار کو اس کا پورا پوراحق دیاجائے۔ جس کے بارے میں رسول معظم (ﷺ) نے یہاں تک فرمایا ہے : ” حضرت ام سلمہ (رض) بیان کرتی ہیں رسول اکرم (ﷺ) نے فرمایا میں انسان ہوں اور تم میرے پاس فیصلے لاتے ہو۔ شاید تم میں سے کچھ لوگ دوسروں کی نسبت اپنا مؤقف بیان کرنے میں زیادہ فصیح ہوں۔ ہوسکتا ہے کہ میں اس کی بات سن کر اس کے حق میں فیصلہ کر دوں۔ جس شخص کو اس کے بھائی کے حق میں سے کچھ دوں تو وہ اسے ہرگز قبول نہ کرے۔ بلا شبہ میں اسے دوزخ کا ایک ٹکڑادے رہا ہوں۔“ [ رواہ البخاری : باب موعظۃ الامام للخصوم] الاحسان : حدیث کی مقدس دستاویزات میں احسان کے دو مفہوم بیان ہوئے ہیں۔ ” انسان اللہ کی عبادت اس طرح کرے جیسے وہ خود اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے۔ یہ ممکن نہیں تو اسے یہ یقین ضرور ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے۔“ [ رواہ البخاری : کتاب الایمان] حقوق العباد میں احسان کا مفہوم یہ ہے کہ انسان دوسرے کے ساتھ معاملہ کرتے ہوئے عدل کے بجائے شفقت اور نرمی کا مظاہرہ کرے ایتائے ذی القربیٰ : اس آیت مبارکہ میں پہلے عدل کا حکم دیا گیا پھر احسان کرنے کی تلقین فرمائی اب یہ بتایا جا رہا ہے کہ احسان کے حقدار سب سے پہلے انسان کے قریبی رشتہ دار ہیں اگر احسان کرنے کے بارے میں قرآن مجید کی متعین کردہ فہرست کا خیال رکھا جائے تو دنیا میں شاید ہی کوئی ایساانسان ہو جس کا قریبی یا قدرے دور کا کوئی رشتہ دار موجود نہ ہو گویا کہ قرآن مجید ایک نظم کے تحت احسان اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے۔ تاکہ اسلامی معاشرے میں کوئی شخص محرومیت کا شکار نہ ہونے پائے۔ اگر کسی کا قریبی رشتہ دار نہ ہو تو اس کا دور کا رشتہ دار ہی اقرب قرار پائے گا۔ کسی سے تعاون کرنے کی ترتیب : ” حضرت بہز بن حکیم اپنے باپ اور وہ اپنے دادا سے بیان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ (ﷺ) سے پوچھا اے اللہ کے رسول! نیکی کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے ؟ آپ نے فرمایا تیری ماں۔ پھر تیری ماں۔ پھر تیری ماں۔ پھر تیرا باپ۔ پھر قریب والا پھر اس کے قریب والا۔“ [ رواہ أبودا ؤد : کتاب الأدب، باب فی بر الوالدین ] محرمات : مذکورہ بالا فرمان میں تین کاموں کا حکم دینے کے بعد تین برائیوں سے منع کیا گیا ہے۔ جس میں پہلی برائی فحش اور بے حیائی ہے۔ محرمات میں سب سے پہلے چھوٹی برائی سے اس لیے منع کیا گیا ہے کہ جب کوئی چھوٹی برائی سے بچنے کی کوشش کرے گا تو اس کے لیے بڑی برائی سے بچنا آسان ہوگا۔ اس لیے پہلے ہر قسم کی بے حیائی سے بچنے کا حکم دیا ہے۔ بے حیائی سے مراد ہر وہ حرکت ہے جسے شریف لوگ برا سمجھتے ہوں۔ بے شک شریعت میں اس کے بارے میں واضح حکم نہ پایا جاتا ہو۔ ایسے کاموں کی ہر معاشرے میں مثالیں پائی جاتی ہیں رسول کریم (ﷺ) کے دور میں اور آج بھی کچھ عربوں کے ہاں یہ رواج ہے کہ جس شخص کو رشتہ درکار ہو وہ لڑکی کے والد سے براہ راست رشتے کا سوال کرتا ہے لیکن ہمارے معاشرے میں اسے بے حیائی سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے ایسی حرکت سے اجتناب کرنا چاہیے۔ بہر حال شریعت کے معیار کے علاوہ ہر معاشرے میں بے حیائی کا ایک معیار خود بخود مقرر ہوجاتا ہے۔ لہٰذا شریعت کی وضع کردہ بے حیائی سے بچنا فرض ہے۔ اور معاشرے کی ناپسندیدہ باتوں سے اجتناب کرنا شرافت اور عقلمندی کی دلیل ہے۔ المنکر : منکر سے مراد ہر وہ گناہ ہے جس سے شریعت نے منع کیا ہے بے شک وہ چھوٹا گناہ ہو یا بڑا گناہ۔ قرآن مجید کا ارشاد ہے کہ لوگو! کھلی اور پوشیدہ برائی کے قریب نہ جاؤ۔ ( الانعام :15) البغی : بغی سے مراد ایسا گناہ جس میں زیادتی کا عنصر بھی شامل ہو۔ اس میں ہر قسم کی زیادتی اور گناہ شمار ہوگا۔ منکر سے رک جانے کا حکم دے کر مسلمانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ معاشی، معاشرتی اور اخلاقی زیادتیوں سے روک دیا گیا ہے۔ یہ ہے اسلامی معاشرے کے حسن و جمال کا ایک خاکہ۔ اس لیے خلیفۂ راشد حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ نے حکم دیا تھا کہ ہر خطیب اپنے خطبہ میں اس آیت کی تلاوت کا اہتمام کیا کرے۔ تاکہ لوگوں کے ذہن میں ہر وقت اسلامی معاشرے کا تصور تازہ رہے۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ عدل کا حکم دیتا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ احسان کا حکم فرماتا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ قریبی رشتہ داروں کے ساتھ تعاون کرنے کا حکم دیتا ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ بے حیائی اور برائی اور ظلم و سرکشی سے روکتا ہے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ کی نصیحت کو قبول کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن : قرآن مجید میں عدل کا حکم اور بے حیائی کی حرمت : 1۔ یقیناً اللہ تمہیں عدل اور احسان اور قریبی رشتہ داروں کے ساتھ تعاون کا حکم دیتا ہے، بے حیائی اور برائی سے روکتا ہے۔ (النحل :90) 2۔ نبی اکرم کو حکم دیا گیا کہ آپ لوگوں کے درمیان عدل قائم کریں۔ (الشوریٰ :15) 3۔ عدل کرو یہ تقویٰ کے قریب تر ہے۔ (المائدۃ:8) 4۔ بے حیائی والے کاموں کے قریب نہ جاؤ۔ (الانعام :151) 5۔ جب بات کرو تو عدل و انصاف کی کرو اگرچہ اپنے قریبی رشتہ دار ہی کے خلاف کیوں نہ ہوں۔ (الانعام :152) 6۔ جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل و انصاف کا کرو۔ (النساء :58) 7۔ اللہ نے یقیناً بے حیائی کو حرام قرار دیا ہے۔ (الاعراف :33)