سورة النحل - آیت 89

وَيَوْمَ نَبْعَثُ فِي كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيدًا عَلَيْهِم مِّنْ أَنفُسِهِمْ ۖ وَجِئْنَا بِكَ شَهِيدًا عَلَىٰ هَٰؤُلَاءِ ۚ وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَىٰ لِلْمُسْلِمِينَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور جس دن ہم ہر امت میں انہی میں سے ان کے مقابلے پر گواہ کھڑا کریں گے اور تجھے ان سب پر گواہ بنا کر لائیں گے (١) اور ہم نے تجھ پر یہ کتاب نازل فرمائی ہے جس میں ہر چیز کا شافی بیان ہے (٢) اور ہدایت اور رحمت اور خوشخبری ہے مسلمانوں کے لئے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : اس خطاب کا آغاز اس بات سے ہوا تھا کہ اللہ تعالیٰ ہر امت پر اس کے نبی کو گواہ کے طور پر پیش فرمائیں گے۔ اس کا اختتام بھی اسی مسئلے سے کیا جا رہا ہے۔ اے رسول! وہ وقت یاد کیجئے کہ جب ہر ا مّت سے ہم ایک گواہی دینے والا کھڑا کریں گے اور آپ کی امت پر آپ کو گواہ کے طور پر لایا جائے گا۔ ہم نے آپ پر ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں ہدایت کے متعلق ہر بات کو کھول کر بیان کردیا گیا ہے۔ یہ کتاب مسلمانوں کے لیے سراسر ہدایت، رحمت اور خوشخبری بنا کر بھیجی گئی ہے۔ حدیث کی مقدس دستاویزات میں اس آیت کی تفسیر رسول اللہ (ﷺ) کی زبان اطہر سے یوں بیان ہوئی ہے کہ ایک دن آپ (ﷺ) نے عبداللہ بن مسعود (رض) کو فرمایا کہ اے عبداللہ! میرا دل چاہتا ہے کہ آپ مجھے قرآن مجید کی تلاوت سنائیں۔ عبداللہ بن مسعود (رض) عرض کرنے لگے کہ اے رسول محترم! یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں آپ کے سامنے قرآن مجید کی تلاوت کروں جب کہ قرآن مجید آپ پر نازل ہوا ہے۔ لیکن آپ (ﷺ) نے حکم دیا، میں تجھ سے قرآن مجید سننا چاہتا ہوں۔ عبداللہ بن مسعود (رض) نے اس آیت کی تلاوت کی جس کی تفصیل جاننے کے لیے حدیث کے مقدس الفاظ پڑھیں تاکہ ہمیں معلوم ہو کہ نبی اکرم (ﷺ) اس آیت کو کس احساس کے ساتھ پڑھا اور سنا کرتے تھے۔ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ قَالَ یَحْیَی بَعْضُ الْحَدِیثِ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ قَالَ قَالَ لِیَ النَّبِیُّ () اقْرَأْ عَلَیَّ قُلْتُ آقْرَأُ عَلَیْکَ وَعَلَیْکَ أُنْزِلَ قَالَ فَإِنِّیْٓ أُحِبُّ أَنْ أَسْمَعَہٗ مِنْ غَیْرِیْ فَقَرَأْتُ عَلَیْہِ سُورَۃَ النِّسَاءِ حَتَّی بَلَغْتُ ﴿فَکَیْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ أُمَّۃٍم بِشَہِیْدٍ وَّجِئْنَا بِکَ عَلٰی ہٰٓؤُلاآءِ شَہِیْدًا﴾ قَالَ أَمْسِکْ فَإِذَا عَیْنَاہُ تَذْرِفَانِ) [ رواہ البخاری : کتاب التفسیر، ﴿فَکَیْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ أُمَّۃٍم بِشَہِیْدٍ وَّجِئْنَا بِکَ عَلٰی ہٰٓؤُلاآءِ شَہِیْدًا﴾] حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں رسول مکرم (ﷺ) نے مجھے فرمایا جب کہ آپ منبر پر تشریف فرماتھے۔ اے عبداللہ! میرے سامنے قرآن مجید کی تلاوت کرو۔ میں نے عرض کیا میں آپ کو پڑھ کرسناؤں؟ جبکہ آپ پر قرآن نازل ہوا ہے۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا میں پسند کرتا ہوں کہ کسی دوسرے سے قرآن مجید سنوں۔ پھر میں نے سورۃ نساء کی تلاوت شروع کردی۔ جب میں اس آیت پر پہنچا ” اس وقت کیا حال ہوگا۔ جب ہم ہر امت سے گواہ لائیں گے اور تجھے ہم ان پربطور گواہ لائیں گے۔“ تو آپ (ﷺ) نے فرمایا اب بس کیجیے۔ میں نے آپ کی طرف نظر اٹھائی تو آپ کی آنکھوں سے زاروقطار آنسو بہہ رہے تھے۔ مسائل: 1۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ہر امت سے ایک گواہ پیش کرے گا۔ 2۔ نبی اکرم (ﷺ) کو آپ کی امت پر گواہ بنایا جائے گا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (ﷺ) پر ایسی کتاب نازل فرمائی جو ہدایت کے متعلق جو ہر بات کھول کر بیان کرنے والی ہے۔ 4۔ قرآن مجید مسلمانوں کے لیے باعث ہدایت، رحمت اور خوشخبری ہے۔ تفسیر بالقرآن : انبیاء ( علیہ السلام) کی شہادت : 1۔ اس دن ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے۔ (النحل :89) 2۔ جس دن ہم اٹھائیں گے ہر امت سے گواہ پھر کفار کو اجازت نہ دی جائے گی۔ (النحل :84) 3۔ تاکہ رسول تم پر گواہ ہو اور اور تم لوگوں پر۔ (البقرۃ:143) 4۔ تاکہ رسول تم پر اور تم لوگوں پر گواہ ہوجاؤ۔ (الحج :78)