وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِن كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيدًا ثُمَّ لَا يُؤْذَنُ لِلَّذِينَ كَفَرُوا وَلَا هُمْ يُسْتَعْتَبُونَ
اور جس دن ہم ہر امت میں سے گواہ کھڑا کریں گے (١) پھر کافروں کو نہ اجازت دی جائے گی اور نہ ان سے توبہ کرنے کو کہا جائے گا۔
فہم القرآن : (آیت 84 سے 85) ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناقدری اور اس کی ذات کے ساتھ کفر کرنے کا انجام۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناقدری اور اس کی ذات کا انکار کرنے والے لوگ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیے جائیں گے۔ وہ جہنم کا عذاب اور رب کا جلال دیکھ کر اپنے گناہوں کا اعتراف کرنے سے انکار کردیں گے۔ اور بڑی ڈھٹائی کے ساتھ کہیں گے کہ اے ہمارے رب ہمارے پاس کوئی سمجھانے والا نہیں آیا تھا اگر کوئی ہمیں سمجھاتا تو ہم ضرور تیری ذات اور فرمان پر ایمان لاتے۔ اس انکار پر ہر امت کے نبی کو ان کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ جب اس امت کا نبی اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی قوم کے خلاف گواہی دے گا کہ اے رب میں نے پیغام من و عن پہنچا دیا تھا۔ مجرم لوگ اپنے نبی کی شہادت مسترد کردیں گے اس پر اللہ تعالیٰ نبی کو حکم فرمائیں گے کہ آپ اپنی تائید کے لیے گواہ پیش کریں وہ نبی امت محمدیہ کے لوگوں کو گواہ کے طور پر پیش کریں گے۔ نبی معظم (ﷺ) کی امت کے لوگ گواہی دیں گے کہ بار الٰہا ہم نے تیرے قرآن میں پڑھا تھا کہ پہلے انبیاء نے اپنی اپنی امتوں کو ٹھیک ٹھیک طریقے سے حق کا پیغام پہنچایا۔ انبیاء (علیہ السلام) کی گواہی دینے کے باوجود مجرم ہر گواہی کو مسترد کرتے جائیں گے۔ اس صورت حال میں اللہ تعالیٰ ان کی زبانوں پر مہر ثبت فرماکر ان کے عضاء کو حکم دے گا کہ تم گواہی دو کہ کیا یہ واقعی مجرم نہیں ہیں؟ مجرموں کے اعضاء اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہو کر اس کے حضور اپنی شہادت پیش کریں گے کہ یہ حقیقی مجرم ہیں۔ ( یٰس :65) جب مجرم لوگ ہر طرف سے لاجواب ہوجائیں گے تو پھر مزید انہیں عذر پیش کرنے کی اجازت نہ ہوگی اور نہ ہی ان کی معذرت قبول کی جائے گی ظالموں کو جس عذاب سے واسطہ پڑے گا اس میں نہ تخفیف کی جائے گی اور نہ ہی انہیں مہلت دی جائے گی۔