وَلِلَّهِ غَيْبُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَمَا أَمْرُ السَّاعَةِ إِلَّا كَلَمْحِ الْبَصَرِ أَوْ هُوَ أَقْرَبُ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
آسمانوں اور زمین کا غیب صرف اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے (١) اور قیامت کا امر تو ایسا ہی ہے جیسے آنکھ کا جھپکنا، بلکہ اس سے بھی زیادہ قریب۔ بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے (٢)۔
فہم القرآن : ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ توحید کے انکار کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ مشرک آخرت کی جوابدہی کا انکار کرتا ہے۔ لہٰذا توحید کے بعدعقیدہ آخرت کے ثبوت دیئے جاتے ہیں۔ گویا کہ توحید اور آخرت کا عقیدہ لازم وملزوم ہیں۔ آدمی کے کفرو شرک اختیار کرنے کی بنیادی وجہ یہ ہوتی ہے کہ کافر سرے سے اللہ تعالیٰ کی ذات کا منکر ہونے کی وجہ سے آخرت کا انکار کرتا ہے۔ مشرک آخرت کے بارے میں اس لیے دلیر ہوتا ہے کہ اس کا عقیدہ ہوتا ہے کہ جنکو وہ مشکل کشا اور حاجت روا سمجھتا ہے وہ قیامت کے دن ا سے بچا لیں گے۔ اس بنا پر کافر کفر سے اور مشرک شرک سے باز نہیں آتا۔ مکہ کے کفار کی حالت یہ تھی کہ وہ آخرت کا انکار کرنے کے ساتھ نبی اکرم (ﷺ) سے مطالبہ کرتے تھے کہ آخرت برپا کیوں نہیں ہوتی؟ جس کے جواب میں قرآن مجید میں کئی دلائل دیئے گئے ہیں یہاں صرف یہ جواب دیا گیا ہے کہ جس طرح زمین و آسمان کے غیبی امور کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اسی طرح اس کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ قیامت کب قائم ہوگی۔ البتہ جب اس کا وقت آئے گا تو آنکھ جھپکنے سے پہلے برپا ہوجائے گی۔ کیونکہ اللہ ہر بات پر قادر ہے۔ (مَنْ مَّاتَ فَقَدْ قَامَتَ قِیَامَتَہٗ) [ السلسلۃ الضعیفۃ و الموضوعۃ ] ” جو شخص مر گیا اس کے لیے قیامت قائم ہوگئی۔“ (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللَّہِ (ﷺ) قَالَ لاَ تَقُوم السَّاعَۃُ حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِہَا، فَإِذَا طَلَعَتْ فَرَآہَا النَّاسُ آمَنُوْا أَجْمَعُوْنَ، فَذٰلِکَ حِیْنَ لاَ یَنْفَعُ نَفْسًا إِیْمَانُہَا، لَمْ تَکُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ، أَوْ کَسَبَتْ فِیْٓ إِیمَانِہَا خَیْرًا، وَلَتَقُوْمَنَّ السَّاعَۃُ وَقَدْ نَشَرَ الرَّجُلاَنِ ثَوْبَہُمَا بَیْنَہُمَا فَلاَ یَتَبَایَعَانِہٖ وَلاَ یَطْوِیَانِہِ، وَلَتَقُوْمَنَّ السَّاعَۃُ وَقَدِ انْصَرَفَ الرَّجُلُ بِلَبَنِ لِقْحَتِہٖ فَلاَ یَطْعَمُہٗ، وَلَتَقُوْمَنَّ السَّاعَۃُ وَہْوَ یَلِیْطُ حَوْضَہٗ فَلاَ یَسْقِیْ فِیْہِ، وَلَتَقُوْمَنَّ السَّاعَۃُ وَقَدْ رَفَعَ أُکْلَتَہٗ إِلٰی فِیْہِ فَلاَ یَطْعَمُہَا) [ رواہ البخاری : کتاب الرقاق ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اللہ (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ سورج مغرب سے طلوع ہوجائے جب سورج مغرب سے طلوع ہوگا تو اسے دیکھ کرتمام کے تمام لوگ ایمان لے آئیں گے۔ لیکن اس وقت اس کے ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہ ہوگا جو اس سے قبل ایمان نہیں لایا اور اس نے نیک اعمال نہ کیے ہوں۔ دو آدمیوں نے کپڑا پھیلایا ہوگا وہ اس کپڑے کو بیچ اور سمیٹ نہیں پائیں گے کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔ دودھ دوہنے والادودھ پی نہیں سکے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔ حوض پر پہنچانے والا پانی نہیں پی سکے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔ کھانا کھانے والا اپنے منہ میں ڈالا ہوا لقمہ کھا نہیں پائے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔“ مسائل: 1۔ آسمان و زمین کی پوشیدہ باتیں اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ 2۔ قیامت آنکھ جھپکنے سے پہلے برپا ہوجائے گی۔ 3۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ تفسیر بالقرآن : قیامت برپا ہو کر رہے گی : 1۔ قیامت آنکھ جھپکنے کی مانند یا اس سے بھی پہلے برپا ہوجائے گی۔ (النحل :77) 2۔ قیامت قریب تر ہے۔ (الانبیاء :1) 3۔ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور قیامت برپا ہونے میں کسی قسم کا کوئی شک نہیں۔ (الکہف :21) 4۔ قیامت میں کوئی شک نہیں اللہ قبروں سے مردوں کو اٹھالے گا۔ (الحج :7) 5۔ بے شک قیامت آنے والی ہے۔ (طٰہٰ :15)