وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا رَّجُلَيْنِ أَحَدُهُمَا أَبْكَمُ لَا يَقْدِرُ عَلَىٰ شَيْءٍ وَهُوَ كَلٌّ عَلَىٰ مَوْلَاهُ أَيْنَمَا يُوَجِّههُّ لَا يَأْتِ بِخَيْرٍ ۖ هَلْ يَسْتَوِي هُوَ وَمَن يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ ۙ وَهُوَ عَلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ
اللہ تعالیٰ ایک اور مثال بیان فرماتا ہے (١) دو شخصوں کی، جن میں سے ایک تو گونگا ہے اور کسی چیز پر اختیار نہیں رکھتا بلکہ وہ اپنے مالک پر بوجھ ہے کہیں بھی اسے بھیج دو کوئی بھلائی نہیں لاتا، کیا یہ اور وہ جو عدل کا حکم دیتا ہے (٢) اور ہے بھی سیدھی راہ پر، برابر ہو سکتے ہیں؟
فہم القرآن : لوگو! اللہ تعالیٰ توحید اور شرک واضح کرنے کے لیے ایک اور مثال بیان فرماتا ہے۔ اسے غور سے سنو! دو آدمی ہیں۔ ان میں ایک گونگا، بہرا ہے۔ جو اپنا مؤقف بیان نہیں کرسکتا اور نہ کسی قسم کی طاقت رکھتا ہے وہ سراسر اپنے آقا پر بوجھ بنا ہوا ہے۔ اس کا آقا اسے جدھر بھیجتا ہے وہ بھلائی کے بجائے نقصان کے ساتھ لوٹتا ہے اس کے مقابلے میں باصلاحیت غلام کو اس کا آقا جدھر بھیجتا ہے وہ انصاف کا حکم دیتا ہے اور خود بھی ٹھیک راستے پر گامزن ہے کیا اس کے ہر کام میں خیر وبرکت ہے۔ بتاؤ یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں ؟ بالکل نہیں۔ یہی فرق ہے مواحد اور مشرک کے درمیان۔ مشرک حقیقت سننے اور اس کا اعتراف کرنے سے قاصر ہے۔ دین کے نام پر جو کام بھی نیکی سمجھ کر کرے گا، نامراد اور نقصان میں رہے گا۔ مواحد ہمیشہ عدل پر قائم ہے اور انصاف کی بات کہتا ہے اور صراط مستقیم پر چلنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کی چھوٹی سی نیکی بھی اس کے رب کے ہاں بڑا مقام رکھتی ہے۔ اس کے لیے اللہ کی طرف سے خیر ہی خیر ہے۔ اس مثال سے یہ بات واضح فرمائی ہے کہ توحید عدل ہے۔ جس کا پرچار کرنا، دنیا میں عدل قائم کرنا ہے۔ یہی صراط مستقیم ہے اس کے بغیر نہ عدل قائم ہوسکتا ہے اور نہ آدمی صراط مستقیم پا سکتا ہے۔ اس مثال سے ثابت ہوتا ہے کہ مشرک گونگا، بہرا اور گمراہ ہوتا ہے اور مواحد حق گو، صاحب بصیرت اور حق کا علمبردار ہوتا ہے۔ صراط مستقیم کے سنگ میل : 1۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے۔ 2۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے۔ 3۔ اولاد کو رزق کی کمی کی وجہ سے قتل نہ کیا جائے۔ 4۔ کھلی اور پوشیدہ بے حیائی سے اجتناب کیا جائے۔ 5۔ کسی کو ناحق قتل نہ کیا جائے۔ 6۔ یتیم کے مال کو ناحق نہ کھایا جائے۔ 7۔ ناپ تول کو پورا کیا جائے۔ 8۔ عدل وانصاف کی بات کی جائے۔ 9۔ اللہ کے عہد کو پورا کیا جائے۔ (عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ کُنَّا عِنْدَ النَّبِیِّ (ﷺ) فَخَطَّ خَطًّا وَخَطَّ خَطَّیْنِ عَنْ یَّمِینِہٖ وَخَطَّ خَطَّیْنِ عَنْ یَّسَارِہٖ ثُمَّ وَضَعَ یَدَہٗ فِی الْخَطِّ الْأَوْسَطِ فَقَالَ ہَذَا سَبِیل اللّٰہِ ثُمَّ تَلَا ہٰذِہِ الْآیَۃَ ﴿وَأَنَّ ہٰذَا صِرَاطِی مُسْتَقِیمًا فَاتَّبِعُوہُ وَلَا تَتَّبِعُوْا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ﴾) [ رواہ ابن ماجۃ: باب اتباع سنۃ رسول اللہ (ﷺ) ] ” حضرت جا بر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں ہم نبی اکرم (ﷺ) کے پاس تھے آپ (ﷺ) نے ایک سیدھا خط کھینچا پھر اس کے دائیں اور بائیں مختلف خطوط کھینچے پھر آپ (ﷺ) نے اپنا دست مبارک درمیان والے سیدھے خط پر رکھتے ہوئے فرمایا یہ اللہ تعالیٰ کا راستہ ہے پھر آپ (ﷺ) نے یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی ﴿وَأَنَّ ہٰذَا صِرَاطِی مُسْتَقِیمًا فَاتَّبِعُوہُ وَلَا تَتَّبِعُوْا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ﴾ “ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں مختلف قسم کی مثالیں بیان فرماتا ہے۔ 2۔ توحید عدل ہے۔ عدل کی تبلیغ کرنے والاصراط مستقیم پر ہوتا ہے۔ 3۔ گونگا اور کسی بات پر قدرت نہ رکھنے والا اور صراط مستقیم پر چلنے والا برابر نہیں۔ 4۔ مشرک اور مواحد برابر نہیں ہو سکتے۔ تفسیر بالقرآن : صراط مستقیم : 1۔ کچھ نہ کرنے والا اور اچھی باتوں کی تعلیم دینے والا اور صراط مستقیم پر چلنے والا برابر ہو سکتے ہیں؟ (النحل :76) 2۔ جس شخص نے اللہ کی رسی کو پکڑلیا اس کی صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کی گئی۔ (آل عمران :101) 3۔ اللہ کو ایک ماننا صراط مستقیم ہے۔ (آل عمران :51) 4۔ اللہ کی عبادت کرنے والا صراط مستقیم پر ہے۔ (یٰس :61) 5۔ اللہ مومنوں کی صراط مستقیم کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔ (الانعام :161) 6۔ اللہ کے رسول کی اطاعت کرنا صراط مستقیم پر چلنا ہے۔ (الزخرف :61)