إِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۚ فَالَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ قُلُوبُهُم مُّنكِرَةٌ وَهُم مُّسْتَكْبِرُونَ
تم سب کا معبود صرف اللہ تعالیٰ اکیلا اور آخرت پر ایمان نہ رکھنے والوں کے دل منکر ہیں اور وہ خود تکبر سے بھرے ہوئے ہیں (١)۔
فہم القرآن : (آیت 22 سے 23) ربط کلام : دلائل کے ساتھ باطل معبودوں کی نفی کرتے ہوئے اللہ کا ایک الٰہ ہونا ثابت کیا گیا ہے۔ اہل علم جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا حقیقی نام اللہ اور الٰہ ہے۔ لفظ الٰہ اور اللہ میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ الٰہ اللہ تعالیٰ کا نام ہونے کے ساتھ اس کی صفت کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے۔ اگر الٰہ کو صرف صفت کے معنیٰ میں لیا جائے تو یہ ایسا لفظ اور نام ہے جو اللہ تعالیٰ کی تمام بڑی بڑی صفات کا ترجمان ہے۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ کی مختلف صفات کا معنی لفظ الٰہ کے ذریعے ادا کیا گیا ہے۔ چنانچہ یہاں پہلی آیات میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں لاتے ان کے دل اس حقیقت سے انکار کرتے ہیں اور آخرت کے انکار کی وجہ سے یہ متکبر ہوگئے ہیں۔ حالانکہ آخرت میں شک کرنے کی رائی برابر گنجائش نہیں انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو کچھ وہ چھپاتے اور جس کا وہ اظہار کرتے ہیں۔ یقیناً اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ یہاں توحید اور عقیدۂ آخرت کو یکجا اس لیے بیان کیا گیا ہے کہ عقیدۂ توحید اس وقت تک کامل اور اکمل نہیں ہوسکتا جب تک انسان موت کے بعد اٹھنا اور اٹھنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونا اور اپنے برے بھلے اعمال کی سزا اور جزا پر یقین نہ رکھے۔ کیوں کہ جو شخص آخرت کا انکار کرتا ہے اس کا منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو موت کے بعد زندہ کرنے پر قادر نہیں سمجھتا اور نہ ہی وہ اللہ تعالیٰ کو عادل اور منصف مانتا ہے حالانکہ اس کے عدل کا تقاضا یہ ہے کہ وہ ایک دن لوگوں کو زندہ کرے اور وہاں نیک لوگوں کو پوری پوری جزا دے اور مجرموں کو ٹھیک ٹھیک سزا دی جائے۔ پوری پوری جزا اور سزا کا عمل قیامت کے بغیر ممکن نہیں کیونکہ دنیا میں انبیاء (علیہ السلام) اور صالحین کی خدمات کا صلہ کما حقہ کوئی نہیں دے سکتا۔ اسی طرح ہی کتنے قاتل ہیں جنہیں دنیا میں ایک مقتول کے بدلے قتل کیا گیا۔ جب کہ باقی مقتول اور مظلوم لوگوں کی سزا اسے نہیں دی جا سکتی۔ ایسے مجرم کو قیامت کے دن ہی ٹھیک ٹھیک سزا دی جائے گی۔ انہیں خبر ہونی چاہیے کہ جو کچھ دنیا میں چھپاتے اور ظاہر کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے لہٰذا کان کھول کر سن لیں! کہ دنیا میں انہیں ڈھیل دینے کا یہ معنیٰ نہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں پسند کرتا ہے۔ ہرگز نہیں اللہ تعالیٰ متکبرین کو ہرگز پسند نہیں کرتا۔ (عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) لَا یَدْخُلُ الجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہٖ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ مِنْ کِبْرٍ فَقَالَ رَجُلٌ اِنَّ الرَّجُلَ یُحِبُّ اَنْ یَّکُوْنَ ثَوْبُہٗ حَسَنًا وَ نَعْلُہٗ حَسَنًا قَالَ اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی جَمِیْلٌ یُّحِبُّ الجَمَالَ اَلْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَ غَمْطُ النَّاسِ)[ رواہ مسلم : باب تحریم الکبر وبیانہ] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا جس شخص کے دل میں رائی کے دانے کے برابر تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہیں ہو سکے گا۔ ایک آدمی نے عرض کی ایک شخص پسند کرتا ہے کہ اس کے کپڑے اور جوتے اچھے ہوں۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا اللہ خوبصورت ہے خوبصورتی کو پسند فرماتا ہے۔ تکبر حق بات کو چھپانا اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔“ مسائل: 1۔ الٰہ حق ایک ہی ہے۔ 2۔ آخرت پر ایمان نہ لانے والوں کے دل منکر ہیں اور وہ تکبر کرتے ہیں۔ 3۔ اللہ تعالیٰ ظاہر اور پوشیدہ کو جانتا ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ تفسیر بالقرآن : الہٰ ایک ہی ہے : 1۔ تمہارا الٰہ ایک ہی ہے اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں وہ رحمن ورحیم ہے (البقرۃ۔163) 2۔ یقیناً اللہ ایک ہی الٰہ ہے وہ اولاد سے پاک ہے آسمان و زمین کی ہر چیز اسی کے لیے ہے (النساء۔171) 3۔ اسکے سوا کوئی الٰہ نہیں مگر وہ اکیلا ہی ہے ( المائدۃ:73) 4۔ کہہ دیجیے اللہ ایک ہی الٰہ ہے اور میں تمہارے شرک سے بری ہوں۔ (الانعام :19) 5۔ اللہ نے فرمایا دو الٰہ نہ بناؤ یقیناً الٰہ ایک ہی ہے۔ (النحل :51)