سورة النحل - آیت 14

وَهُوَ الَّذِي سَخَّرَ الْبَحْرَ لِتَأْكُلُوا مِنْهُ لَحْمًا طَرِيًّا وَتَسْتَخْرِجُوا مِنْهُ حِلْيَةً تَلْبَسُونَهَا وَتَرَى الْفُلْكَ مَوَاخِرَ فِيهِ وَلِتَبْتَغُوا مِن فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور دریا بھی اس نے تمہارے بس میں کردیئے ہیں کہ تم اس میں سے (نکلا ہوا) تازہ گوشت کھاؤ اور اس میں سے اپنے پہننے کے زیورات نکال سکو اور تم دیکھتے ہو کہ کشتیاں اس میں پانی چیرتی ہوئی (چلتی) ہیں اور اس لئے بھی کہ تم اس کا فضل تلاش کرو اور ہوسکتا ہے کہ تم شکر گزاری بھی کرو (١)۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : آفاق اور نباتات کے بعد سمندری انعامات کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف لیل و نہار، شمس و قمر اور ستاروں کو اپنے حکم سے انسان کے تابع بنایا ہے بلکہ اس نے زمین اور سمندر کو بھی انسان کے لیے مسخر کردیا ہے۔ لیکن ان چیزوں کی تسخیر میں بنیادی فرق ہے۔ آفاق سے متعلق کائنات انسان کی خدمت میں مصروف ہونے کے باوجود اس کی دسترس سے باہر ہے۔ جہاں تک زمین سے متعلقہ چیزوں کا تعلق ہے وہ کافی حد تک انسان کی دسترس میں کردی گئی ہیں۔ زمین کو انسان جس طرح چاہے استعمال کرسکتا ہے۔ پہاڑوں میں بڑے بڑے محل اور راستے بنا لیے جاتے ہیں، دریاؤں کے رخ موڑ دیے گئے ہیں۔ 1۔ نہروں کے ذریعے وہاں تک پانی پہنچا دیا جاتا ہے جہاں پہنچنے کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ دریاؤں کے پانی کو بڑے بڑے ڈیموں میں بند کرلیا جاتا ہے۔ 2۔ سمندر کی سطح پر پلوں کی شکل میں بڑی بڑی سڑکیں بنا دی گئی ہیں یہاں تک کہ سمندر کے پانی کی گہرائیوں میں بحری اڈے قائم کردیے گئے ہیں۔ اس طرح مختلف سمندروں سے کروڑوں ٹن ہر روز تروتازہ مچھلی نکالی جاتی ہے۔ جسے انسان اپنی خوراک بنانے کے ساتھ ادویات اور دیگر ضروریات کے لیے استعمال کرتا ہے۔ اسی طرح سمندر کی تہہ سے بڑے بڑے قیمتی ہیرے، جواہرات ہمیشہ سے نکالے جا رہے ہیں جو بالخصوص عورتوں کی حسن و زیبائش کے لیے گراں قدر قیمت کے حامل ہیں۔ معدنیات جیسی خوبصورت چیزیں زمین کی سطح پر نہیں پائی جاتیں۔ اب تو سمندر کے پانی سے تیل اور گیس کے ذخائر تلاش کرلیے گئے ہیں۔ نہ معلوم قیامت تک کون کون سی قیمتی اشیا سمندر کے پانی سے حاصل کرلی جائیں گی۔ ان ذخائر جن کا کوئی اندازہ نہیں کرسکتا۔ اس کے بعد سطح سمندر کی طرف آئیں تو دنیا کی تجارت کا ستر فیصد سے زائد حصہ سمندری راستوں کے ساتھ وابستہ ہے جو پرانے زمانے میں کشتیوں کے ذریعے اور آج کل آبدوزوں اور بحری جہازوں کے ذریعے ایک ملک سے دوسرے ملک پہنچائی جا رہی ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کے فضل کا نتیجہ ہے جس پر انسان کو اپنے رب کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ اگر آدمی تھوڑی سی توجہ کے ساتھ غور کرے تو اسے معلوم ہوگا کہ آخر وہ کونسی وجہ ہے کہ جو پانی سوئی کے معمولی وزن کو اپنی چھاتی پر برداشت نہیں کرتا وہ ہزاروں ٹن وزنی جہازوں کو نہ صرف اپنے آپ پر برداشت کرتا ہے بلکہ اسے اٹھائے ہوئے ہزاروں میل تک منتقل کرنے میں مددگار ثابت ہو رہا ہے۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے انسانی فائدے کے لیے سمندر کو مسخر کر رکھا ہے۔ 2۔ سمندر میں کشتیاں اللہ کے حکم سے چلتی ہیں۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن : شکر کی فضیلت : 1۔ کشتیاں پانی چیرتی ہوئی چلتی ہیں تاکہ تم اس کا فضل تلاش کرو اور شکر کرو۔ (النحل :14) 2۔ اللہ تعالیٰ شکر گزار بندوں کا قدردان ہے۔ (النساء :147) 3۔ اللہ تعالیٰ شکر ادا کرنے والے کو مزید نوازتا ہے۔ (ابراہیم :7) 4۔ تھوڑے ہی بندے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ (سبا :13) 5۔ اللہ نے آنکھ، کان، دل، اس لیے دیے ہیں کہ اس کا شکر ادا کرو۔ (السجدۃ:9) 6۔ اگر تم اللہ کا شکر کرو تو وہ تمہیں عذاب نہیں کرے گا۔ (النساء :147) 7۔ اللہ شکر کرنے والوں کو جزا دے گا۔ (آل عمران : 144۔145) 8۔ شکر سے مراد اللہ کے احکام کی فرمانبرداری کرنا ہے۔ (البقرۃ: 152۔ ابراہیم :7)