سورة الحجر - آیت 72

لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

تیری عمر کی قسم! وہ تو اپنی بد مستی میں سرگرداں تھے (١)۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ قوم لوط (علیہ السلام) کی بدمعاشی کی انتہا۔ قوم لوط (علیہ السلام) کے بدمعاشوں کی بے حیائی اور غنڈہ گردی اس قدر حد سے بڑھ چکی تھی کہ حضرت لوط (علیہ السلام) انتہائی پریشان ہو کر بے ساختہ پکار اٹھے کہ کاش تمہارے مقابلے کے لیے میرے پاس قوت ہوتی یا پھر کوئی مضبوط پناہ گاہ۔ (ھود :80) اس کے باوجود غنڈوں کو شرم نہ آئی تو انہوں نے فرمایا میری بیٹیاں حاضر ہیں۔ (لاعراف :81) حالانکہ وہ لوگ کسی اعتبار سے بھی اس لائق نہ تھے کہ حضرت لوط (علیہ السلام) انھیں اپنی دامادی میں لینے کے لیے تیار ہوتے لیکن مہمانوں کی تکریم اور اپنی بے بسی کی وجہ سے حضرت لوط (علیہ السلام) نے انتہا درجے کی پریشانی میں یہ بات کہی۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کے اضطراب اور بدمعاشوں کی غنڈہ گردی کی منظر کشی کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے نبی آخرالزماں (ﷺ) کی عمر کی قسم کھا کر فرمایا ہے اے نبی (ﷺ) ! آپ کی عمر کی قسم! اس وقت وہ لوگ بے حیائی کے نشے میں اندھے ہوچکے تھے۔ اس فرمان میں ایک طرف ان کی انتہائی بدمعاشی اور غنڈہ گردی کی عکاسی کی گئی ہے تو دوسری طرف یہ اشارہ بھی موجود ہے کہ اے نبی! آپ کے مخالف بھی آپ کی مخالفت میں اندھے ہوچکے ہیں۔ ان لوگوں کو قوم لوط کا انجام اپنے سامنے رکھنا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی آپ کی عزت و عظمت کو دوبالا کرنے کے لیے آپ کی عمر کی قسم کھائی گئی ہے۔ جس سے بڑھ کر آپ کی پاکدامنی کا اور ثبوت نہیں ہو سکتا۔ مفسر قرآن حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے پوری کائنات میں کسی کی عمر کی قسم نہیں کھائی یہ اعزاز و اکرام صرف ہمارے رسول (ﷺ) کو بخشا گیا ہے۔ جہاں تک اللہ تعالیٰ کا مخلوق کی قسم کھانے کا معاملہ ہے یہ اس کی مرضی اور حکمت ہے وہ جس کی چاہے قسم کھائے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہے اسی لیے انسان کے ذہن میں کسی حقیقت کو دو چند کرنے کے کے لیے اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں کسی چیزکی قسم اٹھاتا ہے تو اس سے اس بات اور کام کی اہمیت میں اضافہ کرنا مقصود ہوتا ہے۔ قسم کا یہ مفہوم نہیں ہوتا کہ جس چیز کی قسم کھائی جا رہی ہے کہ وہ قسم کھانے والے سے لازماََ بڑی یا عظیم تر ہے۔ نبی اکرم (ﷺ) کی عظمت : (عَنْ أبِی ذَرِّ الْغَفَّارِیِّ قَالَ قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ کَیْفَ عَلِمْتَ أنَّکَ نَبِیٌّ حَتّٰی اسْتَیْقَنْتُ ؟ فَقَالَ یَا أبَا ذَرٍّ أتَانِی مَلَکَانِ وَأنَا بَ بَعْضَ بَطْحَاءَ مَکَّۃَ فَوَقَعَ أحَدُہُمَا عَلٰی الأرْضِ وَکَان الآخَرُ بَیْنَ السَّمَاءِ وَالأرْضِ فَقَالَ أحَدُہُمَا لِصَاحِبِہِ أہُوَ ہُوَ ؟ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَزِنْہٗ بَرَجُلٍ فَوَزَنَتْ بِہِ فَوَزَنَتْہٗ ثُمَّ قَالَ زِنْہٗ بِعَشْرَۃٍ فَوَزَنَتْ بِہِمْ فَرَجَحْتُہُمْ ثُمَّ قَالَ زِنْہٗ بِمِائَۃِ فَوَزَنَتْ بِہِمْ فَرَجَحْتُہُمْ کَأنِّی أنْظُرُ إلَیْہِمْ یَنْتَثِرُوْنَ عَلٰی مَنْ خِفَّۃِ الْمِیْزَانِ قَالَ فَقَالَ أحَدُہُمَا لِصَاحِبِہِ لَوْ وَزَنْتَہٗ بِأمِّتِہِ لَرَجَحَہَا) [ رواہ الدارمی ] ” حضرت ابوذر غفاری (رض) بیان کرتے ہیں میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول (ﷺ) ! آپ نے کیسے جانا کہ آپ اللہ کے نبی ہیں تاکہ میں بھی یقین کرسکوں آپ نے فرمایا اے ابوذر میرے پاس دو فرشتے آئے اور وہ بطحاء کی وادی میں گھومے پھرے، ایک ان میں سے زمین پر آیا اور دوسرا آسمان و زمین کے درمیان میں رہا۔ ان میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا کیا یہ وہی ہے اس نے کہا ہاں اس نے کہا پھر ان کا وزن ایک آدمی کے ساتھ کیجیے۔ میرا وزن ایک آدمی کے ساتھ کیا گیا میں بھاری نکلا، فرشتے نے کہا ان کا وزن دس آدمیوں کے ساتھ کیا جائے میں پھر بھی بھاری نکلا، پھر فرشتے نے کہا ان کا وزن سو آدمیوں کے ساتھ کیجیے تو میں پھر بھی بھاری نکلا۔ فرشتے نے کہا اگر تو ان کا وزن ان کی پوری امت کے ساتھ کرے گا تو یہ تب بھی بھاری نکلیں گے۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ جس کی چاہے قسم کھائے۔ 2۔ مجرم اپنی مدہوشی میں بہکے رہتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ کی قسموں کے چند حوالے : 1۔ آپ کی جان کی قسم! وہ اپنی مدہوشی میں مست ہیں۔ (الحجر :72) 2۔ قسم ہے ان ہواؤں کی! جو بھیجی جاتی ہیں۔ (المرسلات :1) 3۔ قسم ہے جان سختی سے نکالنے والے فرشتوں کی۔ (النازعات :1) 4۔ قسم ہے برجوں والے آسمان کی۔ (البروج :1) 5۔ قسم ہے آسمان کی اور رات کو نمودار ہونے والی چیز کی۔ (الطارق :1) 6۔ قسم ہے فجر کی۔ (الفجر :1) 7۔ میں قسم کھاتا ہوں مکہ شہر کی۔ (البلد :1) 8۔ قسم ہے آفتاب اور اس کی روشنی کی۔ (الشمس :1) 9۔ قسم ہے آپ کے رب کی وہ مومن نہیں ہو سکتے حتی کہ آپ اپنے درمیان فیصل تسلیم کرلیں۔ (النساء :65)