سورة البقرة - آیت 180

كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

تم پر فرض کردیا گیا کہ جب تم میں سے کوئی مرنے لگے اور مال چھوڑ جاتا ہو تو اپنے ماں باپ اور قرابت داروں کے لئے اچھائی کے ساتھ وصیت کر جائے (١) پرہیزگاروں پر یہ حق اور ثابت ہے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القران : (آیت 180 سے 182) ربط کلام : حرمت جان کے بعد حرمت مال اور پسماند گان کے حقوق کے احترام کا حکم۔ قرآن مجید کا مال کے بارے میں عمومی نقطۂ فگاہ یہ ہے کہ مال اگرچہ حلال اور جائز طریقے سے کمایا گیا ہو تب بھی آدمی کے لیے ایک بھاری آزمائش ہے۔ البتہ آزمائش ہونے کے باوجود مال آدمی کی زندگی کے لیے استحکام اور احترام کا باعث بنایا گیا ہے۔ اس لیے قرآن مجید نے اسے خیر، فضل، رحمت اور نعمت سے تعبیر فرمایا ہے۔ جمع شدہ مال کے بارے میں جو احکامات اور ہدایات جاری فرمائیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب آدمی قریب المرگ ہو تو اسے مال کے متعلق اپنے والدین اور وراثت میں حق دار رشتے داروں کے بارے میں وصیّت کرنی چاہیے۔ یہاں وصیّت اور وراثت کے بارے میں اصلاحات سے لوگوں کو آگاہ فرمایا جارہا ہے کہ وصیّت کرتے ہوئے اپنوں کو چھوڑ کر دوسروں کے لیے وصیّت کرنا جائز نہیں۔ عرب کے لوگ مرتے وقت والدین اور دوسرے حق دار حضرات کو محروم کر کے وراثت صرف اپنی بیوی اور اولاد میں تقسیم کردیا کرتے تھے۔ بسا اوقات اپنے دوست کے حق میں وصیّت کردیتے۔ اس میں اس بات کی طرف بھی اشارہ فرمایا ہے کہ موت کے وقت لواحقین کو اس قسم کی وصیت پر عمل کے لیے نہ کہا جائے کہ جس سے کچھ حق داروں کو محروم کرکے چند اقرباء میں پورے کا پورا مال تقسیم کردیا جائے۔ بعد ازاں اس حکم کی وضاحت میں رسول کریم {ﷺ}نے یہ بھی اصلاح فرمائی کہ فوت ہونے والا تیسرے حصّہ سے زیادہ وصیّت نہیں کرسکتا : (عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِیْ وَقَّاصٍ {رض}قَالَ جَاء النَّبِیُّ {}یَعُوْدُنِیْ وَأَنَا بِمَکَّۃَ وَھُوَ یَکْرَہُ أَنْ یَّمُوْتَ بالْأَرْضِ الَّتِیْ ھَاجَرَ مِنْھَا قَالَ یَرْحَمُ اللّٰہُ ابْنَ عَفْرَاءَ قُلْتُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ أُوْصِیْ بِمَالِیْ کُلِّہٖ قَالَ لَا قُلْتُ فَالشَّطْرُ قَالَ لَا قُلْتُ الثُّلُثُ قَالَ فَالثُّلُثُ وَالثُّلُثُ کَثِیْرٌ إِنَّکَ أَنْ تَدَعَ وَرَثَتَکَ أَغْنِیَاءَ خَیْرٌ مِّنْ أَنْ تَدَعَھُمْ عَالَۃً یَتَکَفَّفُوْنَ النَّاسَ فِیْ أَیْدِیْھِمْ)[ رواہ البخاری : کتاب الوصایا، باب أن یُترک ورثتہٗ أغنیاء خیر من أن یتکففو ا] ” سعد بن ابی وقاص {رض}بیان کرتے ہیں کہ میں مکہ میں تھا۔ نبی اکرم {ﷺ}میری تیمار داری کے لیے تشریف لائے۔ میں مکہ میں موت کو اس لیے ناپسند کرتا تھا کہ یہاں سے میں ہجرت کرچکا تھا۔ آپ {ﷺ}نے فرمایا : اللہ ابن عفراء پر رحم کرے۔ میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! میں اپنے سارے مال کے متعلق وصیت کرتاہوں۔ آپ نے فرمایا : نہیں میں نے کہا : آدھے کی۔ آپ نے فرمایا : نہیں میں نے کہا : تیسرے حصے کی۔ آپ نے فرمایا : تیسرا حصہ بھی زیادہ ہے۔ اگر تو اپنے ورثاء کو مال دار چھوڑ کر جائے تو یہ اس بات سے کہیں بہتر ہے کہ تو ان کو ایسی حالت میں چھوڑ کر جائے کہ وہ کنگال ہوں اور لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔“ وصیّت کرتے وقت وراثت میں حق داروں کی اجازت کے بغیر وراثت میں شریک کسی ایک کے لیے وصیت کرنا جائز قرار نہیں دیا گیا۔ کیونکہ اس سے دوسروں سے بے انصافی ہونے کے ساتھ فوت ہونے والے کے بارے میں ہمیشہ کے لیے نفرت پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔ رسول اللہ {ﷺ}نے فرمایا : (لَا وَصِیَّۃَ لِوَارِثٍ) ” وارث کے لیے وصیت کرنا جائز نہیں۔“ [ رواہ النسائی : کتاب الوصایا باب إبطال الوصیۃ للوارث] تاہم اس بات کی مکمل گنجائش رکھی گئی کہ اگر فوت ہونے والا کسی وجہ سے غلط وصیّت کرتا ہے تو اس کی وصیّت کو شریعت کے مطابق درست کرنا لواحقین پر ایک اہم فرض ہے۔ ایسی صورت میں اصلاح کنند گان پر کوئی گناہ نہیں۔ البتہ شریعت کے مطابق کی گئی وصیت کو تبدیل کرنے والا سخت گناہ گار ہوگا۔ ایسے لوگوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ لوگوں سے تو جرم چھپا سکتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ سے نہیں چھپا سکتے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر بات سننے اور ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ اپنی دو صفات کا ذکر فرما کر اس طرف اشارہ کررہے ہیں کہ اگر تم غلط وصیّت کی اصلاح کرو گے تو یقینًا غَفُوْرٌ رَّحِیْم اصلاح کے اس عمل کے باعث فوت شدہ آدمی سے سر زد ہونے والی سہوًا یا عمدًاغلطی کو معاف فرمادیں گے۔ اس طرح تم ناانصافی اور باہمی اختلافات سے بھی بچ جاؤ گے۔ مسائل : 1۔ فوت ہونے والے کو شریعت کی حدود میں رہ کر اپنے مال کے بارے میں وصیّت کرنی چاہیے۔ 2۔ وصیّت کو بدلنا بڑا گناہ ہے۔ 3۔ غلط وصیّت کی اصلاح کرنے والے پر کوئی گناہ نہیں۔