وَنَبِّئْهُمْ عَن ضَيْفِ إِبْرَاهِيمَ
انہیں ابراہیم کے مہمانوں کا (بھی) حال سنادو۔
فہم القرآن : (آیت 51 سے 56) ربط کلام : گذشتہ آیت میں رحمت کا بیان ہوا۔ اب اللہ کی رحمت کا عملی نمونہ پیش کیا جاتا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے مہمانان گرامی کے ذکر سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت اور عذاب کا ذکر کیا۔ یہاں رحمت کا عملی نمونہ پیش کیا جاتا ہے جس کا پس منظر یہ ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس خوشخبری دینے والے ملائکہ حاضر ہوئے۔ انہوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی خدمت میں سلام پیش کیا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے معمولی توقف کے بعد ان کی خدمت میں بھنا ہوا بچھڑا پیش کیا۔ جب مہمانوں نے کھانے کی طرف ہاتھ نہ بڑھائے تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پریشان ہوئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی پریشانی دیکھتے ہوئے ملائکہ نے انہیں تسلی دیتے ہوئے عرض کی کہ آپ کو ڈرنے کی ضرورت نہیں ہم قوم لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں۔ یہ کہتے ہوئے انہوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے قریب کھڑی ہوئی ان کی بیوی کو بیٹے اور پوتے کی خوشخبری سنائی۔ جس پر بی بی صاحبہ نے بڑے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا کیا میرے ہاں بیٹا جنم لے گا؟ جبکہ میں بانجھ ہوں اور میرا خاوند بوڑھا ہوچکا ہے۔ یہ بات عجب معلوم ہوتی ہے۔ ملائکہ نے اسے تسلی دیتے ہوئے فرمایا اے ابراہیم کے اہل بیت ! کیا تم اللہ کی رحمت اور برکت پر تعجب کا اظہار کرتے ہو۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نہایت ہی قابل تعریف اور بڑی عظمت والاہے۔ ( ھود : 69تا73) یہاں اس واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اے پیغمبر (ﷺ) ! آپ اپنے مخا لفین کو ابراہیم (علیہ السلام) کے معزز مہمانوں کا واقعہ سنائیں۔ جب انہوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی خدمت میں پیش ہو کر سلام عرض کیا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے انہیں فرمایا ہم تو آپ سے خوف محسوس کرتے ہیں۔ مہمان ملائکہ نے عرض کیا ہم سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہم تو آپ کو ایک صاحب علم بیٹے کی خوشخبری سنانے کے لیے حاضر ہوئے ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے انہیں فرمایا یہ کیسی ہے؟ میں تو بڑھاپے کی آخری دہلیز پر کھڑا ہوں۔ ملائکہ نے عرض کیا آپ کو مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ ابراہیم (علیہ السلام) فی الفور فرمانے لگے میں اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوں کیونکہ اس کی رحمت سے مایوس گمراہ لوگ ہی ہوا کرتے ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے جواب سے یہ حقیقت بالکل عیاں ہے کہ وہ اپنے رب کی رحمت پر پورا یقین رکھنے والے تھے لیکن اپنی اور اپنی رفیقۂ حیات کی عمر اور صحت کا خیال کرتے ہوئے خوشخبری پر تعجب کا اظہار فرمایا۔ جس سے ثابت ہوتا ہے وسائل کی کمی اور نا مساعد حالات کی بنا پر حقیقت کے بارے میں تعجب کا اظہار کرنا، اللہ کی رحمت پر مایوس ہونا نہیں ہے لہٰذا تعجب کا اظہار کرنا گناہ نہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے تو اظہار تفصیل کے لئے سوال کیا تھا ورنہ وہ تو اپنے رب کی رحمت سے مایوس نہیں تھے۔ نبی تو اسباب کی ناپیدگی کے باوجود اپنے رب کی رحمت پر بھرپور بھروسہ کرنے والا ہوتا ہے۔ دوسرا اس واقعہ میں یہ بتانا مقصود ہے اے اہل مکہ! یہ حقیقت جان لوکہ تم فرشتوں کے نزول کا مطالبہ کرتے ہو کہ وہ آ کر اس نبی کی تائید کریں تب ہم غور کرنے کے لئے تیار ہوں گے۔ یاد رکھو فرشتے یا تو کسی کے لئے رحمت لے کر آتے ہیں یا زحمت! تم سوچ لو تم کس چیز کے مستحق ہو؟ دوسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بغیر اسباب کے سب کچھ کرسکتا ہے۔ جس طرح ابراہیم (علیہ السلام) کے ہاں اولاد کے بظاہر اسباب نہیں تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو بچے عنایت فرمائے۔ اسی طرح حالات نامساعد ہی کیوں نہ ہوں اللہ تعالیٰ اپنے دین کو ضرور بر ضرور سرفراز فرمائے گا۔ اللہ اسباب کا پابند نہیں اسباب اللہ کے حکم کے پابند ہیں۔