لَا يُؤْمِنُونَ بِهِ ۖ وَقَدْ خَلَتْ سُنَّةُ الْأَوَّلِينَ
وہ اس پر ایمان نہیں لاتے اور یقیناً اگلوں کا طریقہ گزرا ہوا ہے (١)۔
فہم القرآن : (آیت 13 سے 15) ربط کلام : تحفظ اور ضبط قرآن کی گارنٹی دینے کے بعد رسول محترم (ﷺ) کو تسلی اور تشفی دی گئی ہے۔ سرورِ دو عالم (ﷺ) کو اس بات کی تسلّی دینے کے بعد کہ جس قرآن مجید کی یہ لوگ مخالفت کرتے ہیں وہ تو ہمیشہ رہے گا۔ جس کا دوسرے الفاظ میں معنیٰ یہ ہے کہ اے نبی (ﷺ) ! آپ اپنا کام اطمینان کے ساتھ کرتے جائیں کیونکہ آپ کا کام اور پیغام ہمیشہ رہے گا اور ان لوگوں کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ ہم نے آپ سے پہلی اقوام کی طرف بھی رسول بھیجے اور انہوں نے اپنے رسولوں کو استہزءا کا نشانہ بنایا۔ اس رویہ کی پاداش میں وہ جرائم میں آگے ہی بڑھتے گئے۔ یہی حالت آپ (ﷺ) کے مخالفین کی ہے۔ یہ بھی پہلے لوگوں کی روش اختیار کرتے ہوئے ایمان نہیں لائیں گے۔ گویا کہ بعد زمانی کے باوجود ان کے دل اور کردار ایک جیسے ہوگئے ہیں۔ اگر ہم ان کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیں اور یہ ان میں داخل ہوجائیں۔ سب کچھ اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھنے کے باوجود کہیں گے کہ جو کچھ ہم نے دیکھا وہ دھوکے اور جادو کے سوا کچھ نہیں ہے۔ چاند کا دو ٹکڑے ہونا : (عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ (رض) قَالَ انْشَقَّ الْقَمَرُ عَلَی عَہْدِ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) فِرْقَتَیْنِ، فِرْقَۃً فَوْقَ الْجَبَلِ وَفِرْقَۃً دُونَہُ فَقَالَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) اشْہَدُوا)[ رواہ البخاری : باب ﴿وَانْشَقَّ الْقَمَرُ وَإِنْ یَرَوْا آیَۃً یُعْرِضُوا﴾] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) کے زمانہ مبارک میں شق قمر کا واقعہ پیش آیا۔ چاند کے دو ٹکڑوں میں سے ایک ٹکڑا پہاڑ پر گرا اور ایک ٹکڑا اس کے علاوہ تھا آپ (ﷺ) نے فرمایا لوگو ! گواہ ہوجاؤ۔“ معراج کا واقعہ اور مسجد اقصیٰ کا نقشہ : آپ (ﷺ) معراج سے تشریف لائے تو کفار نے اسے یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ ایک مہینہ کا سفر رات کے کچھ حصہ میں کس طرح طے ہوسکتا ہے۔ اگر آپ واقعی مسجد اقصیٰ میں گئے ہیں تو اسکی نشانیاں بتلائیں؟ آپ نے ایک ایک کرکے اس کی نشانیاں بتلادیں لیکن پھر بھی کفار نے معراج کا انکار کیے رکھا۔ (عَنْ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّہِ (رض) قَالَ سَمِعْتُ النَّبِیَّ (ﷺ) یَقُولُ لَمَّا کَذَّبَنِی قُرَیْشٌ قُمْتُ فِی الْحِجْرِ، فَجَلَّی اللَّہُ لِی بَیْتَ الْمَقْدِسِ فَطَفِقْتُ أُخْبِرُہُمْ عَنْ آیَاتِہِ وَأَنَا أَنْظُرُ إِلَیْہِ) [ رواہ البخاری : باب قَوْلِہِ ﴿ أَسْرَی بِعَبْدِہِ لَیْلاً مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ﴾] ” حضرت جابر بن عبدللہ (رض) بیان کرتے ہیں میں نے رسول اللہ (ﷺ) سے سنا آپ نے فرمایا جب کفار نے واقعہ معراج کے سلسلہ میں میری تکذیب کی تو میں مقام حجر میں کھڑا ہوا۔ اللہ نے بیت المقدس کو میرے سامنے کردیا میں نے اس کی طرف دیکھ کر اس کی ساری نشانیاں بتلا دیں۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے آپ سے پہلے بھی پیغمبر مبعوث فرمائے تھے۔ 2۔ کفار انبیاء کا مذاق اڑاتے تھے۔ 3۔ اکثریت اپنے بڑوں کے طور طریقوں کو اپناتی ہے۔ 4۔ کچھ لوگ معجزات دیکھ کر بھی ایمان نہیں لاتے۔ 5۔ کفار معجزات کو جادو سمجھتے تھے۔ تفسیر بالقرآن : کفار کے انبیاء ( علیہ السلام) پر الزامات : 1۔ اگر ہم ان کے لیے آسمان سے کوئی دروازہ کھول دیں اور یہ اس میں سے چڑھ جائیں تو کہیں گے ہماری آنکھیں بند کردی گئی ہیں۔ بلکہ ہم پر جادو کردیا گیا ہے۔ (الحجر : 14۔15) 2۔ آل فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) پر جادو کا الزام لگایا۔ (القصص :36) 3۔ کفار تمام انبیاء کو جادوگر اور دیوانہ قرار دیتے تھے۔ (الذاریات :52) 4۔ کفار نے نبی اکرم (ﷺ) کو جادوگر قرار دیا۔ (الصف :6) 5۔ کفار نے قرآن کو جادو قرار دیا۔ (سبا :43) 6۔ کفار نے نبی اکرم (ﷺ) کو سحر زدہ یعنی جس پر جادو کردیا گیا ہو بھی قرار دیا۔ (الفرقان :8)