سورة البقرة - آیت 174

إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلَ اللَّهُ مِنَ الْكِتَابِ وَيَشْتَرُونَ بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۙ أُولَٰئِكَ مَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ إِلَّا النَّارَ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

بیشک جو لوگ اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی کتاب چھپاتے ہیں اور اسے تھوڑی تھوڑی سی قیمت پر بیچتے ہیں، یقین مانو کہ یہ اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان سے بات بھی نہ کرے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا بلکہ ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 174 سے 176) ربط کلام : اہل کتاب نے حرام و حلال کی فہرست میں تبدیلی کرنے کے ساتھ بے شمار حقائق کو پیٹ کے دھندے کی خاطر چھپا لیا تھا جس پر انہیں جہنم کی وعید سنائی گئی ہے۔ اہل ایمان کو ان سے بچنے کی تلقین کی جا رہی ہے۔ اہل کتاب کے علماء نے صرف رسول معظم {ﷺ}کے اوصاف حمیدہ ہی نہیں چھپائے بلکہ اپنی شکم پروری اور بڑے لوگوں کی عیاشی اور مفادات کی خاطر اللہ تعالیٰ کے احکام بھی چھپانے کے جرم میں ملوّث ہوئے۔ جن میں حلال وحرام کی وضاحت کی گئی تھی۔ اس طرح بے شمارامور کو اپنے لیے جائز اور حرام کردہ چیزوں کو حلال کرنے کی جسارت کے مرتکب ہوئے۔ انہوں نے شکم پروری، سیاسی مفاد، مذہبی مقام اور آخرت کی عظیم اور لامحدود نعمتوں کے بدلے دنیا کی معمولی اور عارضی چیزوں کو حاصل کرنے کے لیے فتویٰ فروشی کی۔ ایسے انواع واقسام کے نوالے کھانے والے ضمیر اور ایمان فروشوں کے ساتھ قیامت کے دن رب کبریا کلام نہیں کرے گا اور نہ ہی انہیں معاف کیا جائے گا‘ انہیں اذیت ناک اور ذلت آمیز عذاب ہوگا کیونکہ یہ لوگ جانتے بوجھتے ہدایت کے بدلے گمراہی اور اللہ کی شفقت ومغفرت کے عوض اس کے قہرو غضب اور ہمیشہ کی زندگی کے مقابلے میں قلیل اور حقیر دنیا کا انتخاب کرنے والے ہیں۔ مزید انتباہ فرمایا کہ آج تو یہ دین کے بدلے درہم ودینار کی شکل میں جہنم کے انگارے جمع کر اور نگل رہے ہیں لیکن قیامت کے دن جب یہ مال حقیقتاً آگ کے شعلے بن چکا ہوگا تب یہ اسے کس طرح برداشت اور اس پر صبر کرسکیں گے؟۔ ذرا غور کیجیے ! کہ جو رحیم وکریم مالک دنیا میں ندامت کے ایک آنسو سے ریت کے ذرّات کے برابر گناہوں کو معاف کردیتا ہے‘ جو توبہ کی غرض سے اٹھنے والے ہاتھوں کی لاج رکھتے ہوئے پہاڑوں سے بڑی بلاؤں کو ٹال دیتا ہے۔ جو اپنے حضور افسردہ چہروں اور کانپتے ہوئے ہونٹوں کی اس حد تک قدر کرتا ہے کہ جو نہی گناہ گار بندوں سے رَبَّنَا ظَلَمْنَا اَنْفُسَنَا سنتا تو اس کی رحمتوں، بخششوں اور مہربانیوں کے سمندر میں تلاطم پید اہو جایا کرتا۔ لیکن آج حق چھپانے کے جرم کی پاداش میں رب ذوالجلال اس حد تک غضب ناک ہوچکے ہیں کہ نظر کرم سے دیکھنے، شفقت سے التفات کرنے اور ایسے لوگوں کو گناہوں سے پاک کرنے کے بجائے سخت ترین عذاب میں مبتلا کیے جارہا ہے۔ درحقیقت یہ لوگ اختلاف وعصبیت اور مفاد پرستی و خود غرضی میں اس قدر آگے بڑھ چکے ہیں کہ انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ حق میں سچائی نظر ہی نہیں آتی۔ یہ اختلاف اور تعصب بالآخر انہیں جہنم میں لے جائے گا۔ یہ ہے پڑھے لکھے بالخصوص ایسے مذہبی پیشواؤں کی سزا جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ حق کو چھپایا اور بات بات میں شریعت کا مفہوم بگاڑا اور اس میں اختلافات پیدا کیے۔ مسائل : 1۔ حق بات چھپانے کے بدلے میں دنیا کمانے والے اپنے پیٹوں میں آگ ڈالتے ہیں۔ 2۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان کو درد ناک عذاب سے نجات نہیں دیں گے۔ 3۔ ہدایت کے بدلے گمراہی اور بخشش کے مقابلے میں عذاب کو ترجیح دینے والوں کے لیے جہنم کی آگ ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ کی آیات میں اختلاف کرنے والا پرلے درجے کا ضدی ہوتا ہے۔ تفسیربالقرآن: دنیا کی حیثیت : 1۔ اللہ کی آیات کے مقابلے میں پوری دنیا قلیل ہے۔ (البقرۃ :174) 2۔ دنیا کا فائدہ قلیل ہے۔ (النساء :77) 3۔ آخرت کے مقابلے میں دنیا قلیل ہے۔ (التوبۃ:38) 4۔ آخرت کے مقابلے میں دنیا کی مدت کم اور قلیل ہے۔ (الاسراء :52)