رُّبَمَا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْ كَانُوا مُسْلِمِينَ
وہ وقت بھی ہوگا کہ کافر اپنے مسلمان ہونے کی آرزو کریں گے (١)۔
فہم القرآن : (آیت 2 سے 5) ربط کلام : اگر کفار ایمان نہیں لاتے تو انہیں کھلے الفاظ میں انتباہ کیا جاتا ہے کہ وقت آئے گا کہ انہیں مسلمان نہ ہونے پر پچھتاوا ہوگا۔ اے نبی (ﷺ) ! آپ کے اخلاص اور جہد مسلسل کے باوجود یہ لوگ اپنے رب کی خالص بندگی کرنے اور آپ کی رسالت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تو ان سے الجھنے کی بجائے ان کو ان کی حالت پر چھوڑتے ہوئے فرما دیجئے : اے حق کا انکار کرنے والو! تم کھاؤ، پیو اور عیش اڑاؤ۔ اپنے خوبصورت سپنوں اور امیدوں میں مگن رہو۔ لیکن یاد رکھنا وقت آئے گا کہ یہ خواب ایک دن چکنا چور ہوجائیں گے اور جس ذات کبریا کا تم انکار کرتے ہو قیامت کے دن اس کے سامنے تمہیں حاضر ہو کر اپنے اعمال کا انجام پانا ہوگا۔ جہاں تک ان کے اصرار اور تکرار کا تعلق ہے کہ ان کی بغاوت اور نافرمانیوں کے باوجودان کا احتساب کیوں نہیں ہو رہا، انہیں فرمائیں یہ تاخیر اللہ تعالیٰ کے مقرر کیے ہوئے ضابطے کے عین مطابق ہے۔ اس نے ہر قوم کے مواخذے کا ایک وقت مقرر کر رکھا ہے۔ جب اس قوم کی ہلاکت کا وقت آتا ہے تو اس میں لمحہ بھر کی تقدیم و تاخیر نہیں ہوتی۔ وہ وقت اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاں لوح محفوظ میں لکھ رکھا ہے۔ جب کسی قوم کی ہلاکت کا وقت آتا ہے۔ تو وہ لوگ حسرت و افسوس کا اظہار کرتے ہوئے صدائیں دیتے ہیں کہ کاش ہم اس سے پہلے اپنے رب کے تابع فرمان ہوجاتے۔ لیکن اس وقت ان کی آہ وزاریاں انہیں کچھ فائدہ نہیں دے سکتیں۔ ﴿فَلَمْ یَکُ یَنْفَعُہُمْ إِیمَانُہُمْ لَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا سُنَّۃَ اللَّہِ الَّتِی قَدْ خَلَتْ فِی عِبَادِہِ وَخَسِرَ ہُنَالِکَ الْکَافِرُونَ ﴾[ المومن :85] ” جب وہ ہمارا عذاب دیکھ چکے تو ان کے ایمان میں انھیں کچھ فائدہ نہ دیا یہ اللہ کا طریقہ ہے جو اس کے بندوں میں چلا آتا ہے اور وہاں کافر خسارے میں رہیں گے۔“ لوح محفوظ میں ہر چیز لکھی ہوئی ہے : (عَنْ عَبْدِاللّٰہِ ابْنِ عَمْرٍو (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) کَتَبَ اللّٰہُ مَقَادِیْرَ الْخَلَآئِقِ قَبْلَ اَنْ یَّخْلُقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِخَمْسِیْنَ اَلْفَ سَنَۃٍ قَالَ وَکَانَ عَرْشُہٗ عَلَی الْمَاءِ) [ رواہ مسلم : باب حِجَاجِ آدَمَ وَمُوسٰی علیھما السلام] ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان پیدا کرنے سے پچاس ہزار سال پہلے مخلوق کی تقدیریں لکھ دیں تھیں اس وقت اللہ کا عرش پانی پر تھا۔“ (عَنْ عَائِشَۃَ (رض) قَالَتْ دُعِیَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) اِلٰی جَنَازَۃِ صَبِیٍّ مِّنَ الْاَنْصَارِ فَقُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ طُوْبٰی لِھٰذَا عُصْفُوْرٌ مِّنْ عَصَافِیْرِ الْجَنَّۃِ لَمْ یَعْمَلِ السُّوْٓءَ وَلَمْ یُدْرِکْہُ فَقَالَ اَوَغیْرُ ذٰلِکَ یَا عَائِشَۃُ اِنَّ اللّٰہَ خَلَقَ لِلْجَنَّۃِ اَھْلًا خَلَقَھُمْ لَھَا وَھُمْ فِیْٓ اَصْلَابِ اٰبَآءِھِمْ وَخَلَقَ للنَّارِ اَھْلًا خَلَقَھُمْ لَھَا وَھُمْ فِیْٓ اَصْلَابِ اٰبَآءِھِمْ) [ رواہ مسلم : باب مَعْنَی کُلُّ مَوْلُودٍ یُولَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں رسول محترم (ﷺ) کو انصار کے ایک بچے کے جنازے کے لیے بلایا گیا میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! اس بچے کے لیے خوشی ہے یہ تو جنت کے پرندوں سے ایک پرندہ ہے اس نے کوئی برا کام نہیں کیا اور نہ ہی اس نے اس کی مہلت پائی۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا عائشہ! حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنت کے لیے کچھ لوگوں کو پیدا فرمایا وہ اسی کے لیے پیدا ہوئے جبکہ وہ اپنے آباء کی پشت میں تھے اور کچھ لوگوں کو دوزخ کے لیے پیدا فرمایا اور وہ دوزخ کے لیے ہی پیدا ہوئے جب وہ اپنے آباء کی پشت میں تھے۔“ مسائل: 1۔ قرآن مجید واضح کتاب ہے۔ 2۔ کافر قیامت کے دن تمنا کریں گے کاش ہم بھی مسلمان ہوتے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ دنیا میں کفار کو مہلت دیتا ہے۔ 4۔ کوئی قوم اپنے مقررہ وقت سے آگے پیچھے نہیں ہو سکتی۔ تفسیر بالقرآن : مجرموں کا افسوس کرنا : 1۔ عذاب کے وقت کفار کا حسرت و افسوس کرنا۔ (البقرۃ:167) 2۔ موت کے وقت آہ و زاریاں کرنا۔ (المومنون :99) 3۔ محشر کے میدان میں حسرت و افسوس کا اظہار کرنا۔ (النباء :40) 4۔ جہنم میں ان کا آہ و بکا کرنا۔ (فاطر :37)