الر ۚ تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ وَقُرْآنٍ مُّبِينٍ
ا لر، یہ کتاب الٰہی کی آیتیں ہیں اور کھلی اور روشن قرآن کی (١)۔
فہم القرآن : ﴿الم﴾۔ حروف مقطعات میں سے ہیں۔ جن کے بارے میں پہلے ذکر ہوچکا ہے کہ ان کا حقیقی علم اور مفہوم اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا اور یہ بھی کسی کو معلوم نہیں کہ جن سورتوں کے شروع میں مقطعات لائے گئے ہیں اس میں کیا حکمت پنہاں ہے۔ ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارا ایمان ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے جن سورتوں کی ابتداء حروف مقطعات سے کی ہے۔ اس میں کوئی خاص حکمت مضمر ہے۔ جس کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ سورۃ الحجر کی ابتدا بھی حروف مقطعات سے ہوئی۔ ارشاد ہوتا ہے : یہ کتاب الٰہی ہے جس کا نام قرآن مجید ہے۔ یہ ایسی کتاب ہے جو اپنے احکام بالکل واضح طور پر بیان کرتی ہے۔ قرآن مجید کے بد ترین مخالفوں کا اعتراف : ڈاکٹر گستادلی بان نے اپنی کتاب ” تمدن عرب“ میں قرآن کی حیرت انگیزی کا اعتراف کیا، ان کے الفاظ یہ ہیں : ” پیغمبر نبی اُمّی اسلام کی ایک حیرت انگیز سر گزشت ہے، جس کی آواز نے ایک قوم ناہنجار کو جو اس وقت تک کسی ملک کے زیر حکومت نہ آئی تھی رام کیا، اور اس درجہ پر پہنچا دیا کہ اس نے عالم کی بڑی بڑی سلطنتوں کو زیر و زبر کر ڈالا۔“ مسٹر وڈول جو قرآن مجید کا ترجمہ اپنی زبان میں کیا لکھتا ہے : ” جتنا بھی ہم اس کتاب یعنی قرآن کو الٹ پلٹ کر دیکھیں اسی قدر پہلے مطالعہ میں اس کی مرغوبیت نئے نئے پہلوؤں سے اپنا رنگ جماتی ہے، فوراً ہمیں مسخر اور متحیر کردیتی ہے اور آخر میں ہم سے تعظیم کرا کر چھوڑتی ہے، اس کا طرز بیان با عتبار اس کے مضامین کے، عفیف، عالی شان اور تہدید آمیز ہے اور جا بجا اس کے مضامین سخن کی غایت رفعت تک پہنچ جاتے ہیں، غرض یہ کتاب ہر زمانہ میں اپنا پر زور اثر دکھاتی رہے گی۔“ (فہم القرآن جلد اول صفحہ65) مسائل: 1۔ قرآن مجید ایک واضح کتاب ہے۔