أَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ
کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے پاکیزہ بات کی مثال کس طرح بیان فرمائی، مثل ایک پاکیزہ درخت کے جس کی جڑ مضبوط ہے اور جس کی ٹہنیاں آسمان میں ہیں۔
فہم القرآن : (آیت 24 سے 25) ربط کلام : نیا خطاب۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں یہ بات ودیعت فرمائی ہے کہ اسے کوئی بات مثال دے کر سمجھائی جائے تو نہ صرف اسے سمجھ آجاتی ہے بلکہ وہ بات اسے زندگی بھر یاد رہتی ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اہم ترین مسائل: کو امثال کے ذریعے سمجھایا ہے۔ پہلے پارے میں دین اسلام کو بارش کے ساتھ تشبیہ دی۔ بارش میں فوائد بھی ہیں اور کچھ نقصان کا اندیشہ بھی ہوتا ہے۔ گویا کہ دین میں فوائد کے ساتھ قربانی بھی دینا پڑتی ہے۔ (البقرۃ :19) دین اسلام بارش کی طرح فائدہ مند چیز ہے لیکن جس طرح اچھی زمین بارش کا فائدہ اٹھا کر نباتات اگاتی ہے اور خراب زمین اس کا فائدہ نہیں اٹھا پاتی یہی مثال دین اسلام کی ہے سعادت مند اور عقلمند فائدہ اٹھاتے ہیں۔ دنیا کے طالب اور لاپروا فائدہ نہیں اٹھا پاتے۔ عقیدۂ توحید سمجھانے کے لیے مکھی کی مثال دی کہ اگر وہ کھانے سے کوئی چیز اٹھا کے لے جائے تو معبودان باطل اور ان کو مشکل کشا سمجھنے والے اس سے وہ چیز واپس نہیں لے سکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ مدد مانگنے والے اور جن سے مدد طلب کی جاتی ہے دونوں ہی کمزور ہیں۔ (الحج :73) شرکیہ عقیدہ کی کمزوری کو واضح کرنے کے لیے مکڑی کی مثال دی کہ جس طرح مکڑی مضبوط چھت کے نیچے اپنے لیے جالا بن کر اسے محفوظ سمجھتی ہے یہی مشرک کی حالت ہے کہ وہ قادر مطلق پر یقین کرنے کی بجائے کمزور سہارے تلاش کرتا ہے اور ان پر بھروسہ کرتا ہے۔ (العنکبوت :41) حالانکہ وہ کسی وقت بھی سہارا نہیں بن سکتے۔ سورۃ ابراہیم کے اس مقام پر عقیدہ توحید کو ایک درخت کے ساتھ تشبیہ دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ اے لوگو! کیا تم غور نہیں کرتے کہ کلمہ طیبہ کو اللہ تعالیٰ ایک پاکیزہ درخت کے ساتھ تشبیہ دیتے ہوئے سمجھاتا ہے کہ یہ ایسا درخت ہے کہ جس کی جڑیں زمین میں جمی ہوئی ہیں اور اس کی شاخیں آسمان کی بلند یوں میں لہرا رہی ہیں۔ یہ درخت اپنے رب کے حکم سے ہر موسم میں پھل دے رہا ہے۔ یہ مثال اس لیے دی جا رہی ہے تاکہ لوگ اس سے سبق حاصل کریں۔ حقیقت ہے کہ ہر درخت کا ایک بیج ہوتا ہے بے شک وہ بیج کی شکل میں ہویا جڑ کی صورت میں درخت اسی کی بنیاد پر زمین میں جڑ پکڑتا، فضا میں پھیلتا اور پھل دیتا ہے۔ جس طرح کا بیج ہوگا اسی طرح کا درخت اور اس کا پھل ہوگا۔ یہی انسان کے عقیدہ اور اس کے کردار کی مثال ہے۔ اگر عقیدہ باطل یا کمزور ہے تو اس کا کردار بھی گھناؤنا اور کمزور ہوگا۔ اگر عقیدہ توحید پر مبنی اور مضبوط ہے تو اس کے کردار اور گفتار میں نکھار اور پختگی ہوگی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے کلمہ طیبہ کو ایک ایسے درخت کے ساتھ تشبیہ دی ہے جس کی جڑیں زمین میں پھیلی ہوئی اور مضبوط ہیں اگر اسے پانی نہ بھی مل سکے تو اس کی جڑیں زمین سے پانی جذب کر کے درخت کی ہر یالی کو سدا بہار رکھتے ہوئے اسے ہر موسم میں بار آور بناتی ہیں۔ اس کی شاخیں فضا میں ہر سو لہلہاتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ اس کا سایہ گھنا اور پھل میٹھا ہوتا ہے۔ یہی مثال عقیدۂ توحید کی ہے۔ جس کی بنیاد کلمہ طیبہ پر ہے جس میں آدمی یہ اقرار کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا نہ کوئی چیز دینے والا ہے اور نہ کوئی چیز لینے والا ہے۔ اسی بنیاد پر مواحد کے عقیدہ وعمل میں نکھار اور کمال ہوتا ہے۔ اس کے تعلقات میں اخلاص، معاملات میں نکھار، کردار میں عدل وانصاف، گفتار میں وقار اور اخلاق اعلیٰ ہوتا ہے اور ہونا چاہیے۔ حاکم ہے تو رعایا پروری کرے گا، مال دار ہے تو صدقہ وخیرات کرے گا، طاقتورہے تو دوسرے کی مدد کرے گا، علم و لیاقت کا مالک ہے تو لوگوں کے لیے علم ومعرفت کا ذریعہ بنے گا، رات کو اٹھے گا تو اپنی اور امت کی خیر مانگے گا، صبح کو گھر سے نکلے گا تو اپنوں بیگانوں کا بھلا کرے گا۔ گویا کہ جلوت وخلوت، رات اور دن میں کوئی گھڑی ایسی نہیں ہوگی جس میں یہ اپنے رب سے غافل اور اس کا ضمیر اپنے رب کے حضور جو ابدہی کے تصور سے خالی ہو۔ مصیبت آئے گی تو ثابت قدم رہے گا، نعمت چھن جائے تو صبر کرے گا۔ کچھ حاصل ہوگا تو اپنے رب کا شکر گزار ہوگا۔ مسائل: 1۔ کلمہ طیبہ کی مثال پاکیزہ درخت کی سی ہے جس کی جڑیں مضبوط اور شاخیں اونچائی میں ہیں۔ 2۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کی نصیحت کے لیے مثالیں بیان کرتا ہے۔