وَأُدْخِلَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ ۖ تَحِيَّتُهُمْ فِيهَا سَلَامٌ
جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے وہ ان جنتوں میں داخل کیے جائیں گے جن کے نیچے چشمے جاری ہیں جہاں انھیں ہمیشگی ہوگی اپنے رب کے حکم سے (١) جہاں ان کا خیر مقدم سلام سے ہوگا (٢)
فہم القرآن : ربط کلام : جہنمیوں کے بعد جنتیوں کے مرتبہ و مقام کا تذکرہ۔ قرآن مجید کا کتنا مؤثر اور دلکش انداز ہے کہ جب کفار کا ذکر کرتا ہے تو ان کے ساتھ جنتیوں کے اوصاف کا بیان ہوتا ہے۔ جنت کے ذکر کے بعد جہنم کا بیان اور جہنم کے بیان کے بعد جنت کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ اسی دلرُبا اسلوب کے پیش نظر جہنمیوں کے ذکر کے بعد جنتیوں کا تذکرہ شروع ہوا۔ ارشاد ہوتا ہے۔ جو لوگ ایمان لائے اور صالح عمل کرتے رہے انہیں ایسے باغوں میں داخل کیا جائے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔ وہ اپنے رب کے حکم سے ان میں ہمیشہ ہمیش رہیں گے۔ وہاں ان پر ہر طرف سے اللہ کی رحمتیں نازل ہوں گی۔ وہ ایک دوسرے کو سلامتی کی دعائیں دیں گے ” تحیّۃ“ کا معنی ہے بہترین ماحول میں ایک دوسرے کے ساتھ ملاقات کرنا۔ دنیا میں بھی یہ لوگ ایک دوسرے کی سلامتی اور خیر خواہی کے طالب تھے۔ کیونکہ انہیں حکم تھا کہ ایک دوسرے کو السلام علیکم کہا کریں خیر سگالی کے جذبات، عقیدۂ توحید اور نیک اعمال کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نہ صرف انہیں اپنی جنت میں داخل کرے گا بلکہ انہیں ہر قدم اور مقام پر چاروں طرف سے سلام اور سلامتی کی صدائیں اور پیغام آئیں گے۔ (عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ (رض) أَنَّ رَجُلاً جَآءَ إِلَی النَّبِیِّ (ﷺ) فَقَال السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ قَالَ قَال النَّبِیُّ (ﷺ) عَشْرٌ ثُمَّ جَآءَ آخَرُ فَقَال السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللَّہِ فَقَال النَّبِیُّ (ﷺ) عِشْرُوْنَ ثُمَّ جَآءَ آخَرُ فَقَال السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ فَقَال النَّبِیُّ (ﷺ) ثَلاَ ثُوْنَ ) [ رواہ الترمذی : باب ماذکر فی فضل السلام ] ” حضرت عمران بن حصین (رض) کا بیان ہے کہ ایک آدمی نبی کریم (ﷺ) کے پاس آیا اس نے السلام علیکم کہا۔ آپ نے فرمایا دس نیکیاں ہیں۔ پھر دوسرا آدمی آیا اس نے السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہا آپ (ﷺ) نے فرمایا اس کیلیے بیس نیکیاں ہیں پھر تیسرا آدمی آیا اس نے السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہا آپ (ﷺ) نے فرمایا اس کیلیے تیس نیکیاں ہیں۔“ (عن أبیْ ہُرَیْرَۃَ قال قالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) خَلَقَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ آدَمَ عَلَی صُورَتِہٖ طُولُہٗ سِتُّوْنَ ذِرَاعًا فَلَمَّا خَلَقَہٗ قَالَ اذْہَبْ فَسَلِّمْ عَلٰٓی أُولَئِکَ النَّفَرِ وَہُمْ نَفَرٌ مِنَ الْمَلائِکَۃِ جُلُوْسٌ فَاسْتَمِعْ مَا یُجِیْبُونَکَ فَإِنَّہَا تَحِیَّتُکَ وَتَحِیَّۃُ ذُرِّیَّتِکَ قَالَ فَذَہَبَ فَقَال السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ فَقَالُوْا السَّلاَمُ عَلَیْکَ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ قَالَ فَزَادُوہُ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ قَالَ فَکُلُّ مَنْ یَّدْخُلُ الْجَنَّۃَ عَلٰی صُورَۃِ آدَمَ وَطُولُہٗ سِتُّونَ ذِرَاعًا فَلَمْ یَزَلِ الْخَلْقُ یَنْقُصُ بَعْدَہٗ حَتَّی الآنَ )[ رواہ مسلم : کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمہا وأہلہا، باب یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ أَقْوَامٌ أَفْئِدَتُہُمْ مِثْلُ أَفْئِدَۃِ الطَّیْرِ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) ذکر کرتے ہیں کہ رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو اپنی صورت پر تخلیق فرمایا۔ ان کا قد ساٹھ ہاتھ لمبا تھا۔ جب اللہ تعالیٰ ان کی تخلیق سے فارغ ہوا تو حکم فرمایا : آدم اس جماعت کے پاس جاکر سلام کہو۔ وہ فرشتوں کی مجلس ہے۔ وہ جو جواب دیں اسے سنو، وہی جواب تیرا اور تیری اولاد کا ہوگا۔ جب حضرت آدم (علیہ السلام) نے جاکرالسلام علیکم کہا تو انہوں نے السلام علیکم ورحمۃ اللہ سے جواب دیا۔ نبی محترم (ﷺ) فرماتے ہیں کہ فرشتوں نے ورحمۃ اللہ کا اضافہ کیا۔ آپ فرماتے ہیں : جنت میں داخل ہونے والا ہر شخص آدم (علیہ السلام) کی شکل وصورت پر ہوگا اور ہر جنتی کا قد ساٹھ ہاتھ لمبا ہوگا۔ لیکن حضرت آدم (علیہ السلام) کے بعد انسانی قد میں مسلسل کمی ہوتی رہی یہاں تک کہ انسان کا قد اتنا رہ گیا۔“ مسائل: 1۔ صاحب ایمان اور عمل صالح کرنے والوں کو جنت میں داخل کیا جائے گا۔ 2۔ جنت کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔ 3۔ مومن جنت میں ہمیشہ رہیں گے۔ 4۔ جنتی با ہم ملاقات کے وقت ایک دوسرے کو سلام کہیں گے۔ تفسیر بالقرآن : نیک لوگوں کے لیے موت کے بعد سلامتی ہی سلامتی ہے : 1۔ قیامت کے دن نیک لوگ جنت میں داخل کیے جائیں گے اس میں ان کی دعا سلام ہوگا۔ (ابراہیم :23) 2۔ جب فرشتے نیک لوگوں کی روحیں قبض کرتے ہیں تو کہتے ہیں تم پر سلامتی ہو۔ (النحل :32) 3۔ حکم ہوگا کہ جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہوجاؤ۔ (ق :34) 4۔ جنت کا دربان کہے گا تم پر سلامتی ہو۔ (الزمر :73) 5۔ ان کے لیے اللہ کے ہاں سلامتی والا گھر ہے۔ (الانعام :127)