وَبَرَزُوا لِلَّهِ جَمِيعًا فَقَالَ الضُّعَفَاءُ لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا إِنَّا كُنَّا لَكُمْ تَبَعًا فَهَلْ أَنتُم مُّغْنُونَ عَنَّا مِنْ عَذَابِ اللَّهِ مِن شَيْءٍ ۚ قَالُوا لَوْ هَدَانَا اللَّهُ لَهَدَيْنَاكُمْ ۖ سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا مَا لَنَا مِن مَّحِيصٍ
سب کے سب اللہ کے سامنے ربرو کھڑے ہونگے (١) اس وقت کمزور لوگ بڑائی والوں سے کہیں گے کہ ہم تو تمہارے تابعدار تھے، تو کیا تم اللہ کے عذابوں میں سے کچھ عذاب ہم سے دور کرسکنے والے ہو؟ وہ جواب دیں گے کہ اگر اللہ ہمیں ہدایت دیتا تو ہم بھی ضرور تمہاری رہنمائی کرتے، اب تو ہم پر بے قراری کرنا اور صبر کرنا دونوں ہی برابر ہیں ہمارے لئے کوئی چھٹکارا نہیں۔ (٢)
فہم القرآن : ربط کلام : اللہ تعالیٰ جس طرح زمین و آسمانوں اور انسانوں کو پہلی مرتبہ پیدا کرنے والا ہے اسی طرح دوبارہ زندہ کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ انسانوں کو دوبارہ پیدا کرے گا جس کے لیے لفظ ﴿ بَرَزُوْا﴾ استعمال کیا ہے جس کا معنی ہے پردے سے نکلنا۔ پردے سے مراد عالم برزخ ہے جسے عرف عام میں قبر کی زندگی کہا جاتا ہے۔ قیامت کے پہلے مرحلہ میں ساری مخلوق موت کے گھاٹ اتار دی جائے گی۔ یہاں تک کہ زمین و آسمان بھی ختم کردیے جائیں گے۔ پھر ایک خاص مدت کے بعداللہ تعالیٰ اسرافیل کو پیدا کر کے اسے صور پھونکنے کا حکم دے گا۔ جب اسرافیل صور پھونکے گا تو انسان اور ہر جاندار زندہ ہو کر اپنے اپنے مقام سے نکل کر محشر کے میدان میں جمع ہوجائیں گے۔ جس کی تفصیل احادیث کی کتب میں موجود ہے اس کے بعد حساب و کتاب ہوگا۔ جنتی جنت میں اور جہنمی جہنم میں داخل کیے جائیں گے۔ جب جہنمی جہنم میں اکٹھے ہوں گے تو مرید گمراہ پیروں، ور کر اپنے لیڈروں اور کار کن اپنے رہنماؤں سے پوچھیں گے کہ ہم تو تمہارے تابع تھے تمہاری وجہ سے گمراہ ہوئے۔ اب بتاؤ کہ عذاب سے چھٹکارا پانے کی کوئی صورت ہے؟ گمراہ پیر اور رہنما انتہائی درماندگی اور ذلت کے لہجہ میں جواب دیں گے کہ اگر اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت دیتا تو ہم ضرور تمہاری رہنمائی کرتے۔ آج ہم اسی طرح لاچار اور مجبور ہیں جس طرح تم لاچار اور مجبور ہو۔ لہٰذا ہمارے لیے برابر ہے کہ ہم جزع وفزع کریں یا صبر کریں۔ جہنم سے نکلنے کے لیے ہمارے لیے کوئی راستہ اور طریقہ نہیں ہے۔ جہاں تک رہنماؤں کا یہ کہنا ہے کہ اگر اللہ ہمیں ہدایت دیتا تو ہم تمہاری ضرور رہنمائی کرتے۔ یہ بھی ان کا مجرمانہ جواب اور جھوٹ ہوگا۔ ورنہ اگر وہ دنیا میں اللہ تعالیٰ سے ہدایت کی توفیق مانگتے تو انہیں ضرور ہدایت نصیب ہوجاتی۔ اللہ تعالیٰ نے ہر قوم تک ہدایت پہنچانے کا وعدہ اور بندوبست کر رکھا ہے۔ اس نے یہ وعدہ انبیاء ( علیہ السلام) اور ان کے سچے متبعین کے ذریعے پورا کردیا ہے۔ جہنم میں داخل ہونے والے لیڈروں اور مذہبی پیشواؤں نے اپنی ذات اور مفاد کے لیے گمراہی اختیار کی اور اسی سبب اپنے عقیدت مندوں اور مریدوں کو گمراہ کیا تھا۔ ایک وقت آئے گا جس کا جہنم میں برملا اعتراف کریں گے۔ جہاں تک ور کروں اور عقیدت مندوں کا تعلق ہے ان کا عذر قیامت کے دن اس لیے قبول نہیں ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں عقل وشعور بخشا تھا جس سے ہدایت اور گمراہی، غلط اور صحیح رہنماؤں کے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کرسکتے تھے۔ مذہی لوگوں نے اندھی تقلید اور ور کروں نے ذاتی اور پارٹی مفادات کی خاطر غلط رہنماؤں کی پیروی کی تھی جس کی وجہ سے ان کا کوئی عذر قبول نہیں کیا جائے گا۔ مسائل: 1۔ سبھی لوگ اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہوں گے۔ 2۔ جہنم میں جہنمیوں کا چیخنا چلانا اور صبر کرنا کسی کام نہ آئے گا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچنے کی کوئی صورت نہ ہوگی، گمراہ پیر اپنے مریدوں اور لیڈر اپنے کارکنوں کی مدد نہیں کرسکیں گے۔ تفسیر بالقرآن : شیطان کی عبادت کرنے والوں کا انجام : 1۔ جہنم میں مرید، پیروں، ور کر، لیڈروں سے کہیں گے کہ ہم تمہارے تابع تھے کیا تم اللہ کے عذاب کا کچھ حصہ دور کرسکتے ہو۔ (ابراہیم :21) 2۔ وہ کہیں گے ہمارا چیخنا چلانا اور صبر کرنا برابر ہے۔ (ابراہیم :21) 3۔ جہنم میں چھوٹے، بڑوں سے کہیں گے کہ ہم تمہارے تابع تھے کیا تم ہمارے عذاب سے کچھ کم کرسکتے ہو۔ وہ کہیں گے ہم سب جہنم میں رہیں گے۔ (المومن : 47۔48) 4۔ جب پہلے لوگوں کو دیکھیں گے تو کہیں گے انہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا انہیں دوگنا عذاب دیا جائے۔ (الاعراف :38) 5۔ مجرم اپنے اہل و عیال کو پیش کریں گے تاکہ ہماری نجات ہوجائے۔ (المعارج : 11تا13)