أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ ۚ إِن يَشَأْ يُذْهِبْكُمْ وَيَأْتِ بِخَلْقٍ جَدِيدٍ
کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو بہترین تدبیر کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ اگر وہ چاہے تو تم سب کو فنا کر دے اور نئی مخلوق لائے۔
فہم القرآن : (آیت 19 سے 20) ربط کلام : کفار کو ان کے اعمال کی حیثیت اور انجام بتلانے کے بعد اللہ تعالیٰ اپنی قدرت وسطوت کا اظہار کرتا ہے۔ عربی زبان میں ﴿ تَرٰی﴾ کا معنی صرف ” دیکھنا“ نہیں ہوتا بلکہ یہ لفظ غور کرنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ اکثر اہل علم نے ﴿اَلَمْ تَرَ﴾ کا معنی ” اَلَمْ تَعْلَمْ“ یعنی کیا ہے۔ کہ کیا آپ نہیں جانتے یا تو نے غور نہیں کیا کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو حق کے ساتھ پیدا فرمایا ہے حق کے ساتھ پیدا کرنے کے دو مفہوم ہیں۔ 1۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بلاوجہ اور بے مقصد پیدا نہیں فرمایا بلکہ زمین و آسمان اور ان میں بے شمار مخلوق کو پیدا فرما کر انہیں وسیع ترین نظام کے ساتھ مربوط کردیا ہے۔ جو اپنے اپنے مقام پر اللہ تعالیٰ کی تفویض کردہ ذمہ داری کو پورا کرنے کے ساتھ اس کی حمدوثنا کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ 2۔ دوسرا مفہوم یہ ہے جس قادر مطلق نے زمین و آسمان کو وجود بخشا اور اس لامحدود نظام کو کنٹرول کر رکھا ہے اے انسان! تجھے غور کرنا چاہیے کہ اس لامحدود نظام کے اندر تیری بغاوت کی کیا حیثیت ہے؟ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو تیرے وجود کو ناپید کر دے اور تمہاری جگہ نئی مخلوق لے آئے۔ کیونکہ زمین و آسمان کی تخلیق کے مقابلے میں تمہیں ختم کر کے دوسری نسل یامخلوق پیدا کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک معمولی بات ہے۔ سورۃ یٰس میں ارشاد فرمایا : ﴿أَوَلَیْسَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضَ بِقَادِرٍ عَلی أَنْ یَّخْلُقَ مِثْلَہُمْ بَلٰی وَہُوَ الْخَلَّاقُ الْعَلِیْمُ۔إِنَّمَآ أَمْرُہٗٓ إِذَآ أَرَادَ شَیْئًا أَنْ یَّقُولَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ ﴾[ یٰس :81] ” بھلا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، کیا وہ اس بات پر قادر نہیں کہ ان کو ویسے ہی پیدا کردے کیوں نہیں ! وہ تو بڑا پیدا کرنے والا اور علم والا ہے۔ اس کی شان یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اسے فرما دیتا ہے کہ ہوجا تو وہ ہوجاتی ہے۔“ (عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) أَنَّ رَجُلاً کَانَ قَبْلَکُمْ رَغَسَہُ اللّٰہُ مَالاً فَقَالَ لِبَنِیْہِ لَمَّا حُضِرَ أَیَّ أَبٍ کُنْتُ لَکُمْ قَالُوا خَیْرَ أَبٍ قَالَ فَإِنِّیْ لَمْ أَعْمَلْ خَیْرًا قَطُّ، فَإِذَا مُتُّ فَأَحْرِقُوْنِیْ ثُمَّ اسْحَقُوْنِیْ ثُمَّ ذَرُّونِیْ فِیْ یَوْمٍ عَاصِفٍ فَفَعَلُوْا، فَجَمَعَہُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ، فَقَالَ مَا حَمَلَکَ قَالَ مَخَافَتُکَ فَتَلَقَّاہُ بِرَحْمَتِہٖ )[ رواہ البخاری : کتاب أحادیث الأنبیاء ] ” حضرت ابو سعید (رض) نبی کریم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں کہ تم سے پہلے ایک آدمی کو اللہ تعالیٰ نے مال کی فراوانی عطا کی تھی۔ جب اس کا آخری وقت آیا تو اس نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ میں تمہارے لیے کیسا باپ ہوں ؟ انہوں نے کہا بہترین! اس نے کہا کہ میں نے کبھی نیک عمل نہیں کیا۔ جب میں مر جاؤں تو مجھے جلا کر میری راکھ ہواؤں میں اڑا دینا۔ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے دوبارہ زندہ کر کے دریافت فرمایا۔ تجھے ایسا کرنے پر کس بات نے ابھاراتھا؟ وہ کہنے لگا آپ کے ڈر نے ! اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی رحمت میں لے لیا۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو حق کے ساتھ پیدا فرمایا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ چاہے تو ساری مخلوق تباہ کر دے اور نئی مخلوق کو بسا دے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی کام مشکل نہیں ہے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی چیز پیدا کرنا مشکل نہیں : 1۔ اگر اللہ چاہے تو تمہیں فنا کردے اور نئی مخلوق لے آئے۔ یہ اللہ کے لیے کچھ مشکل نہیں ہے۔ (ابراہیم : 19۔20) 2۔ اگر اللہ چاہے تو تم کو فنا کر کے دوسری مخلوق لے آئے یہ اللہ کے لیے مشکل نہ ہے۔ (فاطر : 16۔17) 3۔ اگر اللہ چاہے تو تمہیں لے جائے اور تمہاری جگہ دوسروں کو لے آئے۔ (النساء :133) 4۔ اگر اللہ چاہے تو تمہیں لے جائے اور تمہارے بعد جسے چاہے لے آئے۔ (الانعام :133) 5۔ اے ایمان والو ! اگر تم دین سے مرتد ہوجاؤ تو اللہ تعالیٰ تمھارے جگہ دوسری قوم کو لے آئے گا۔ (المائدۃ :54)