وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنزَلَ اللَّهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا ۗ أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ
اور ان سے جب کبھی کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی کتاب کی تابعداری کرو تو جواب دیتے ہیں ہم اس طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا، گو ان کے باپ دادے بے عقل اور گم کردہ راہ ہوں (١)۔
فہم القرآن : (آیت 170 سے 171) ربط کلام : تقلید آباء بھی شیطان کی پیروی کا نتیجہ ہے۔ جس طرح شیطان بے حیائی اور انسان کو اللہ تعالیٰ کے بارے میں لایعنی گفتگو کا حکم دیتا ہے اسی طرح وہ یہ بات بھی دلیل کے طور پر آدمی کو سمجھاتا ہے کہ آخر پہلے لوگ اور بزرگ کوئی غلط اور گمراہ تھے؟ حالانکہ یہ سوچ عقل کے خلاف اور جانوروں کا طریقہ ہے۔ جب انہیں حرام وحلال اور دیگر مسائل کے حوالے سے کتاب اللہ کی طرف رجوع کرنے کے لیے کہا جائے تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو انہی روایات پر چلیں گے جن پر ہمارے آباء و اجداد چلا کرتے تھے۔ وہ یہ بھی نہیں سوچتے کہ ان کے بزرگ دین کی سمجھ نہیں رکھتے تھے اور نہ ہی ہدایت یافتہ تھے۔ اس ارشاد سے یہ بات بڑی واضح ہوتی ہے کہ بزرگوں کی روایات کو اس وقت اپنایا جائے گا جب وہ کتاب الٰہی کے مطابق ہوں گی۔ بصورت دیگر ہر فرد پر انہیں مسترد کرنا فرض ٹھہرے گا۔ اگر رسومات اور بزرگوں کی روایات کو من و عن قبول کرلیا جائے تو پھر شریعت کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے ؟ درحقیقت یہ وہ اندھی تقلید ہے جسے بہانہ بنا کر لوگ گمراہی کے راستہ پر چلنا اپنے لیے فخرسمجھتے ہیں۔ دین کے راستے میں یہی وہ رکاوٹ ہے جو انبیاء کرام کے سامنے سب سے پہلے پیش کی جاتی تھی۔ تقلید خاندانی روایات کی صورت میں ہو یا ائمہ کرام کے حوالے سے، مقلدین ہمیشہ سے جذباتی فضاپیدا کرتے ہوئے دوہی جواز پیش کرتے ہیں۔ ایک جوازجو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے خطاب کے جواب میں فرعون نے پیش کیا تھا کہ اے موسیٰ ! جو ہمارے بزرگ پہلے فوت ہوچکے ہیں کیا وہ سب کے سب گمراہ اور جہنمی تھے؟ جس کا جواب پیغمبرانہ شان کے مطابق دیتے ہوئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا تھا کہ پہلوں کے بارے میں خدا ہی بہتر جانتا ہے۔ وہ نا بھٹکا ہے اور نا بھولتا ہے۔ [ طٰہٰ: 51، 52] دوسرا جواز یہ بیان کیا جاتا ہے کہ کیا ائمہ کرام اور بڑے بڑے علماء کو اس مسئلہ کا علم نہیں تھا ؟ اگر تقلید جامد کے مؤ یّدین کے نزدیک قرآن وسنت ہی معیار ہو تو انہیں یہ انداز گفتگو کس طرح زیب دیتا ہے ؟ بسا اوقات اس کا جواب اس قدرحساس صورت حال پیدا کردیتا ہے کہ اعتراض کرنے والا اپنے گریبان میں جھانکے بغیر نہیں رہ سکتا۔ کیونکہ اگر یہ بزرگ واقعتًا اس اختلافی مسئلہ میں کتاب و سنت کا علم رکھتے تھے تو وہ قرآن وسنت کے واضح دلائل کے خلاف کس طرح عمل کرسکتے تھے ؟ اگر اس مسئلہ کے بارے میں قرآن وسنت کے دلائل سامنے ہونے کے باوجود انہوں نے اسے تسلیم نہیں کیا تو ان کی عظیم شخصیات کو کس نظر سے دیکھنا چاہیے؟ اس نازک صورت حال میں سلامتی کا یہی راستہ ہے کہ ہم قرآن وسنت کو معیار ٹھہراتے ہوئے ان کے بارے میں یہ نقطۂ نگاہ قائم کریں کہ علم کی اشاعت کم ہونے کی وجہ سے مطلوبہ دلائل ان کی نگاہ سے اوجھل رہے۔ جس کی وجہ سے ان کی طرف منسوب موقف نظر ثانی کے لائق ہے۔ لیکن مقلدانہ ذہن رکھنے والے حضرات اہمیتِ مسئلہ اور ان کی شخصیات کا لحاظ رکھے بغیر تقلید پر اصرار کرنا دین کا حصّہ تصور کرتے ہیں۔ قرآن مجید اس طرز فکر کو عقل وہدایت کا راستہ تصور نہیں کرتا۔ اس لیے اندھے مقلدین کے بارے میں یہ تبصرہ فرمایا کہ ان کی مثال تو جانوروں کی طرح ہے جو عقل وفکر اور کسی اصول کی پیروی کیے بغیر محض اپنے سے پہلے جانور کی اتباع میں چلے جا رہے ہیں اور مقلد بھی جانوروں کی طرح بات کا مفہوم سمجھے بغیر محض ایک پکار‘ دعو ٰی اور ایک عادت کے طور چلتے ہیں۔ اب یہ سننے، بولنے اور دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہوچکے ہیں۔ جس کی وجہ سے عقل وفہم کے دروازے ان پر بند ہیں اور یہ حقیقی عقل سے عاری ہوچکے ہیں۔ جب عقل ہی اپنے ٹھکانے نہ رہی تو ہدایت کس طرح پاسکتے ہیں ؟۔ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مقابلے میں آباء و اجداد کی اتّباع نہیں کرنا چاہیے۔ 2۔ کافر لوگ جانوروں کی طرح بلانے والے کی صرف آواز سنتے ہیں غور و فکر نہیں کرتے۔ 3۔ کافر جانوروں سے بھی زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں۔ تفسیربالقرآن : اندھی تقلید کا انجام : 1۔ مشرک اپنے آباؤ اجداد کی اندھی تقلید کرتے ہیں۔ (البقرۃ:170) 2۔ المائدۃ: 103 3۔ الاعراف : 28 4۔ یونس : 78 5۔ الانبیاء : 53 6۔ الشعراء : 74 7۔ لقمان : 21 8۔ الصافات : 69، 70 9۔ الزخرف : 22تا 25