قَالَتْ رُسُلُهُمْ أَفِي اللَّهِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ يَدْعُوكُمْ لِيَغْفِرَ لَكُم مِّن ذُنُوبِكُمْ وَيُؤَخِّرَكُمْ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ قَالُوا إِنْ أَنتُمْ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا تُرِيدُونَ أَن تَصُدُّونَا عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُنَا فَأْتُونَا بِسُلْطَانٍ مُّبِينٍ
ان کے رسولوں نے انھیں کہا کہ کیا حق تعالیٰ کے بارے میں تمہیں شک ہے جو آسمانوں اور زمین کا بنانے والا ہے وہ تمہیں اس لئے بلا رہا ہے کہ تمہارے تمام گناہ معاف فرما دے (١) اور ایک مقرر وقت تک تمہیں مہلت عطا فرمائے، انہوں نے کہا تم تو ہم جیسے ہی انسان ہو (٢) تم چاہتے ہو کہ ہمیں ان خداؤں کی عبادت سے روک دو جن کی عبادت ہمارے باپ کرتے رہے ہیں (٣) اچھا تو ہمارے سامنے کوئی کھلی دلیل پیش کرو (٤)۔
فہم القرآن : ربط کلام : انبیاء (علیہ السلام) کے بار، بار سمجھانے کے باوجود لوگوں کا بلا دلیل اور بلا جواز توحید ورسالت کے بارے میں شک کرنا اور اس کا جواب۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) کا طریقہ، توحید کا عقیدہ اور اس کے دلائل اتنے ٹھوس، واضح اور شفاف تھے اور ہیں کہ اگر کوئی شخص اخلاص کے ساتھ انہیں سمجھنا چاہے تو اسے کوئی دقّت پیش نہیں آتی۔ اللہ کی ذات اور اس کی قدرت کے شواہد اس قدر کھلے اور عام ہیں کہ ایک ان پڑھ سے ان پڑھ انسان بھی اس کا ادر اک کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) ایک مرتبہ نہیں، زندگی بھر اللہ کی توحید کے دلائل دیتے رہے۔ مگر نہ ماننے والے یہ کہہ کر انکار کرتے تھے کہ ہمارے شک وشبہات ابھی تک دور نہیں ہوئے۔ جس پر انبیاء کرام (علیہ السلام) انہیں فرمایا کرتے کہ شک وشبہات کا بہانہ کرنے والو! کیا تم اللہ کی ذات کے بارے میں شک کرتے ہو؟ جس نے بغیر کسی پہلے سے موجود نقشے اور میٹریل کے زمین و آسمان کو پیدا فرمایا وہ تمہیں سمجھاتا اور بلاتا ہے کہ میرے بندو! میری طرف آجاؤ۔ میں تمہارے گناہوں کو معاف کرنے کے لیے تیار ہوں اور میں ہی تمہیں ایک معین مدت تک مہلت دیئے رکھتا ہوں۔ انسان جتنا بھی اللہ سے دور اور اس کا سرکش ہوجائے اللہ تعالیٰ پھر بھی اسے مدت مدید تک مہلت دیے رکھتا ہے تاکہ میرا بندہ میری رحمت کا حقدار ہوجائے۔ لیکن لوگوں نے توحید خالص کا عقیدہ قبول کرنے کی بجائے انبیاء ( علیہ السلام) کو یہ بھی جواب دیا کہ تم تو ہمارے جیسے انسان ہو۔ اس دعوت کے پیچھے تمہارا مقصد یہ ہے کہ ہمارے بزرگوں اور معبودوں کے عقیدہ اور طریقہ سے روک دیا جائے۔ ہم تمہاری دعوت اور باتوں پر مطمئن نہیں۔ اس لیے ہمارے سامنے کوئی بھاری معجزہ پیش کرو۔ کچھ اہل علم نے شک سے مراد فکری تذبذب لیا ہے اور بعض کا خیال ہے کہ لوگ انبیاء ( علیہ السلام) کی عظیم اور پر خلوص جدو جہد کے باوجود عقیدہ توحید کو نہ سمجھ سکے مگر شرک کے بارے میں ضرور شک کا شکار ہوگئے۔ صد احترام کے باوجود اس توجیہہ کے ساتھ اتفاق کرنے کو دل نہیں مانتا۔ کیونکہ قرآن مجید کے دوسرے مقامات سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ کفار اللہ تعالیٰ کی ذات کے منکر تھے۔ جس طرح آج مادہ پرست سائنسدان اور عام لوگ انکار کرتے ہیں۔ اسی طرح ہر دور کے مشرک صرف ایک اللہ کو حاجت روا، مشکل کشا ماننے کی بجائے یہ خیال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ تنہا ہماری مشکلات حل نہیں کرسکتا اور نہ ہی برائے راست ہماری فریادیں سنتا ہے۔ یہی وہ شک اور مشرکانہ عقیدہ ہے۔ جس میں ہلاک ہونے والی اقوام مبتلا تھیں۔ مسائل: 1۔ کفار اللہ تعالیٰ کے بارے میں شک میں مبتلا تھے۔ 2۔ زمین و آسمان کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے گناہ معاف کردیتا ہے۔ 4۔ کفار انبیاء (علیہ السلام) سے بار بارمعجزات طلب کرتے تھے۔ تفسیر بالقرآن : کفار اور مشرکین کا انبیاء کرام (علیہ السلام) کے ساتھ رویہ : 1۔ کفار کہتے تھے کہ تم ہمارے جیسے بشر ہو تم چاہتے ہو کہ ہم اپنے آباء واجداد کے معبودوں کو چھوڑ دیں۔ (ابراہیم :10) 2۔ کفار نے انبیاء سے کہا کہ ہم تمہیں اپنی زمین سے نکال دیں گے۔ (ابراہیم :13) 3۔ حضرت نوح کو قوم کا جواب جب ان کے پاس رسول معجزات لے کر آئے تو انہوں نے انکار کیا۔ (المومن :22) 4۔ حضرت نوح کو قوم کے سرداروں نے کہا تو تو ہمارے جیسا ہی ایک آدمی ہے اور تیری پیروی کرنے والے بھی ادنیٰ لوگ ہیں۔ (ھود :27) 5۔ قوم عاد نے اللہ کی آیات کا انکار کیا اور رسولوں کی نافرمانی کی۔ (ھود :59) 6۔ حضرت موسیٰ کو فرعون نے کہا کیا تم اپنے جادو سے ہمیں ہماری زمین سے نکالنا چاہتے ہو۔ (طٰہٰ:57) 7۔ کافروں کے پاس جب حق آیا تو انہوں نے اسے واضح طور پر جادو قرار دیا۔ (سبا :43) 8۔ کفار نے نبی اکرم کو جادو گر قرار دیا۔ (الفرقان :8)