وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ أَنجَاكُم مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ وَيُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ ۚ وَفِي ذَٰلِكُم بَلَاءٌ مِّن رَّبِّكُمْ عَظِيمٌ
جس وقت موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ کے وہ احسانات یاد کرو جو اس نے تم پر کئے ہیں، جبکہ اس نے تمہیں فرعونیوں سے نجات دی جو تمہیں بڑے دکھ پہنچاتے تھے، تمہارے لڑکوں کو قتل کرتے تھے اور تمہاری لڑکیوں کو زندہ چھوڑتے تھے، اس میں تمہارے رب کی طرف سے تم پر بہت بڑی آزمائش تھی (١)
فہم القرآن : ربط کلام : آزادی حاصل کرنے کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا بنی اسرائیل کو خطاب۔ بنی اسرائیل اس قدر متلون مزاج اور احسان فراموش تھے کہ جب فرعون کی غرقابی کے بعد بیت المقدس کی طرف جارہے تھے تو راستے میں انہوں نے ایسے لوگوں کو دیکھا جو بتوں کے سامنے اعتکاف کرتے تھے۔ نبی اسرائیل کے ذہن میں شرک اس قدر سمایا ہوا تھا کہ وہ موسیٰ (علیہ السلام) سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اے موسیٰ ! ہمارے لیے بھی اس قوم کے معبودوں کی طرح معبود بنا دیجئے جس پر موسیٰ (علیہ السلام) نے انہیں ڈانٹا کہ تم کیسے جاہل لوگ ہو۔ یہ لوگ تو برباد ہونے والے ہیں اور جو کچھ یہ کرتے ہیں یہ سب کا سب باطل ہے۔ کیا اللہ کے سوا میں تمہارے لیے کوئی اور الٰہ تلاش کروں حالانکہ اس نے تمہیں پوری دنیا پر فضیلت عطا فرمائی ہے۔ (الاعراف : 138۔140) آزادی کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا قوم کو خطاب : ﴿وَإِذْ أَنْجَیْنَاکُمْ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ یَسُوْمُوْنَکُمْ سُوْٓءَ الْعَذَابِ یُقَتِّلُوّنَ أَبْنَآءََ کُمْ وَیَسْتَحْیُوْنَ نِسَآءََ کُمْ وَفِیْ ذٰلِکُمْ بَلَآءٌ مِنْ رَّبِّکُمْ عَظِیْمٌ﴾[ الاعراف :141] ” وہ وقت یاد کرو جب اللہ تعالیٰ نے تمہیں آل فرعون کے مظالم سے نجات عطا فرمائی۔ آل فرعون تمہیں شدید ترین عذاب میں مبتلا رکھتے تھے حال یہ تھا کہ آل فرعون تمہارے بیٹوں کو قتل کرتے اور تمہاری بچیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے اس میں تمہارے رب کی طرف سے سخت ترین آزمائش تھی۔“ اسی بات کو موسیٰ (علیہ السلام) کے حوالے سے بیان کیا جارہا ہے کہ انہوں نے اپنی قوم کو سمجھاتے ہوئے فرمایا کہ اے میری قوم! اللہ کے احسان کو یاد کرو، جب اس نے آل فرعون سے نجات دی جو تمہیں بدترین سزادیتے تھے۔ تمہارے بیٹوں کو مار ڈالتے اور تمہاری بیٹیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے۔ اس میں تمہارے رب کی طرف سے بھاری آزمائش تھی۔ چند الفاظ اور سیاق و سباق کے فرق کے ساتھ یہ آیت مبارکہ قرآن مجید میں تین مرتبہ آئی ہے۔ جس میں بنی اسرائیل کو یہ یاد دلانا مقصود ہے کہ اہل کتاب! تم اپنے آپ کو بنی اسرائیل یعنی حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد کہتے ہو۔ سوچو اور غور کرو کہ آج کس طرح تم حضرت محمد (ﷺ) اور آپ کے ساتھیوں کی مخالفت پر تلے ہوئے ہو حالانکہ وہ نسل کے اعتبار سے تمہارے جد امجد حضرت اسحاق (علیہ السلام) کے بڑے بھائی، حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ہیں، تمہارے انبیاء ( علیہ السلام) پر ایمان لانے والے اور تمہاری کتابوں کی تصدیق کرنے والے ہیں۔ حق تو یہ تھا کہ تم آگے بڑھ کر ان کے معاون بنتے۔ مگر تم حسدو بغض میں آکر ان کی مخالفت کیے جا رہے ہو۔ مسائل: 1۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو آزادی کی نعمت یاد دلائی۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو آل فرعون سے نجات دلائی۔ 3۔ فرعون نبی اسرائیل کے بیٹوں کو ذبح کرتا اور بیٹیوں کو زندہ چھوڑ دیتا تھا۔ تفسیر بالقرآن : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ کے انعام یا ددلانا : 1۔ موسیٰ نے اپنی قوم کو کہا کہ اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو۔ (ابراہیم :6) 2۔ موسیٰ نے اپنی قوم کو اللہ کے انعام یادرکھنے کی تلقین کی۔ (المائدۃ :20) 3۔ اے بنی اسرائیل اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو جو اس نے تم پر انعام کی ہیں۔ (البقرۃ :47) 4۔ موسیٰ نے کہا کیا میں تمھیں کوئی اور معبود تلاش کرکے دوں حالانکہ اس نے تمھیں جہان والوں پر فضیلت دی ہے۔ (الاعراف :140)