وَقَدْ مَكَرَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ فَلِلَّهِ الْمَكْرُ جَمِيعًا ۖ يَعْلَمُ مَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ ۗ وَسَيَعْلَمُ الْكُفَّارُ لِمَنْ عُقْبَى الدَّارِ
ان سے پہلے لوگوں نے بھی اپنی مکاری میں کمی نہ کی تھی، لیکن تمام تدبیریں اللہ ہی کی ہیں، (١) جو شخص جو کچھ کر رہا ہے اللہ کے علم میں ہے (٢) کافروں کو ابھی معلوم ہوجائے گا (اس) جہان کی جزا کس کے لئے ہے؟
فہم القرآن : (آیت 42 سے 43) ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ اے پیغمبر! ان لوگوں کا مخالفت کرنا کوئی انوکھی بات اور پہلا واقعہ نہیں۔ آپ سے پہلے جتنے پیغمبر ہوئے۔ مخالفین ان کے خلاف ہر قسم کا مکرو فریب اور ظلم و زیادتی کیا کرتے تھے۔ مکر کے معافی ہیں۔ ” فریب، دھوکہ، سازش اور تدبیر کرنا۔“ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہو تو تمام اہل علم کے نزدیک اس کا معنی تدبیر کرنا ہوتا ہے۔ جب اس کی نسبت کفار، منافقین اور حق کے منکرین کی طرف ہو تو اس کا معنی مکرو فریب ہوجایا کرتا ہے۔ یہاں رسول مکرم (ﷺ) کو تسلی دینے اور حقیقت حال سے آگاہ کرنے کے لیے فرمایا ہے کہ اے پیغمبر! گھبرانے اور دل چھوٹا کرنے کی ضرورت نہیں۔ آپ سے پہلے انبیاء (علیہ السلام) کے جتنے مخالف گزرے ہیں انہوں نے انبیاء (علیہ السلام) کے خلاف مکرو فریب اور سازشیں کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ جس کے ثبوت حضرت نوح (علیہ السلام) سے لے کر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے مخالفین کے حوالے سے موجود ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی تدبیر ان کے مکرو فریب پر غالب رہی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے اپنی تدبیر کامیاب کرنے میں غالب ہے۔ اطمینان رکھیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کے مخالفوں اور ہر شخص کے کردار کو پوری طرح جانتا ہے۔ عنقریب حق کا انکار کرنے والوں کو معلوم ہوجائے گا کہ انجام کار اور آخرت کا گھر کس کے لیے بہتر ہے۔ ہزاروں دلائل اور درجنوں معجزات دیکھنے اور سننے کے باوجود کافر کہتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول نہیں ہیں۔ پورے اطمینان کے ساتھ انہیں فرمائیں کہ تمہارے انکار کا مجھ پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ تم میری رسالت کی گواہی نہیں دینا چاہتے تو تمہاری مرضی، لیکن یاد رکھو کہ میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواہ ہے اور وہ شخص بھی میرے حق میں گواہ ہے جس کے پاس کسی بھی آسمانی کتاب کا علم ہے یعنی تو رات، انجیل، زبور اور قرآن مجید میں میری رسالت کی جابجا شہادتیں پائی جاتی ہیں۔ برٹش اینڈ فارن بائیبل سوسائٹی لاہور 1931ء کی چھپی ہوئی بائیبل میں یوحنا کی انجیل کے باب چودہ کی سولہویں آیت میں ہے۔ میں باپ سے درخواست کروں گا تو وہ تمھیں دوسرا مددگار بخشے گا کہ ابد تک تمھارے ساتھ رہے۔“ لفظ مددگار پر حاشیہ ہے۔ اس پر اس کے معنی وکیل یا شفیع لکھے ہیں۔ تو اب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد جو شفیع ہوا اور ابد تک رہے یعنی اس کا دین کبھی منسوخ نہ ہو بجزسید عالم (ﷺ) کے کون ہے ؟ پھر انتیسویں تیسویں آیت میں ہے اور اب میں نے تم سے اس کے ہونے سے پہلے کہہ دیا ہے تاکہ جب ہوجائے تو تم یقین کرو اس کے بعد میں تم سے بہت سی باتیں نہ کروں گا۔ کیونکہ دنیا کا سردار آتا ہے اور مجھ میں اس کا کچھ نہیں۔“ (سورۃ الصف : 6 تدبر قرآن، از قلم : امین احسن اصلاحی) ﴿وَإِذْ قَالَ عِیْسٰی ابْنُ مَرْیَمَ یَا بَنِیْ إِسْرَائِیلَ إِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ إِلَیْکُمْ مُصَدِّقًا لِمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرَاۃِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُوْلٍ یَأْتِیْ مِنْ بَعْدِیْ اسْمُہُ أَحْمَدُ فَلَمَّا جَاءَ ہُمْ بالْبَیِّنَاتِ قَالُوْا ہٰذٰا سِحْرٌ مُبِیْنٌ﴾[ الصف :6] ” اور جب عیسیٰ نے کہا اے بنی اسرائیل میں تمھاری طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں تورات کی تصدیق کرنے والا اور ایک رسول کی بشارت سنانے والا ہوں جو میرے بعد آئے گا اور اس کا نام احمد ہوگا جب آپ ان کے پاس معجزات لے کر آگئے تو انھوں نے کہا یہ تو سراسر جاد وہے۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں کسی کی تدبیر کار گر نہیں ہوتی۔ 2۔ ہر کسی کو اس کے اچھے اور بڑے انجام کا علم ہوجائے گا۔ 3۔ تورایت، انجیل اور زبور کا علم رکھنے والا جانتا ہے کہ حضرت محمد (ﷺ) رسول حق ہیں۔ 4۔ کافر جان لیں گے کہ اچھا انجام کس کا ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن : انبیاء (علیہ السلام) کے خلاف مجرموں کے مکرو فریب : 1۔ ان سے پہلے بھی مکر وفریب کرچکے ہیں حالانکہ اللہ کے مقابلہ میں کسی کی تدبیر کارگر نہیں ہوتی۔ (الرعد :42) 2۔ انہوں نے مکر کیا اور ہم نے تدبیر کی اور انہیں اس تدبیرکا علم بھی نہ ہوسکا۔ (النمل :50) 3۔ اللہ نے کفار کے لیے ان کے مکر کو مزین کردیا ہے۔ (الرعد :33) 4۔ ان کے مکر کا انجام دیکھو ہم نے انہیں اور ان کی قوم کو ہلاک کردیا۔ (النمل :51)