قَالَ هَلْ عَلِمْتُم مَّا فَعَلْتُم بِيُوسُفَ وَأَخِيهِ إِذْ أَنتُمْ جَاهِلُونَ
یوسف نے کہا جانتے بھی ہو کہ تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ اپنی نادانی کی حالت میں کیا کیا (١)؟
فہم القرآن : (آیت 89 سے 90) ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ برادران یوسف کی بے بسی اور انتہا درجے کی عاجزی دیکھ کر حضرت یوسف (علیہ السلام) اپنا تعارف کرواتے ہیں۔ یوسف (علیہ السلام) کے بھائی انتہا درجہ عاجز ہو کر ان کے سامنے فریاد کرتے ہیں۔ یہاں سے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے خواب کی عملی تعبیر کی ابتدا ہوتی ہے جو انہوں نے بچپن میں دیکھا تھا۔ یقیناً حضرت یوسف (علیہ السلام) ابھی سوچ ہی رہے ہوں گے کہ میں نے بچپن میں خواب میں گیارہ ستاروں کو اپنے سامنے جھکتے ہوئے دیکھا تھا ہوسکتا ہے کہ اس کی تعبیر یہی ہو تب اللہ تعالیٰ نے انہیں وحی کے ذریعے یہ اجازت عنایت فرمائی کہ اے یوسف ! اب وقت آگیا ہے کہ تم ان سے یہ سوال کرو اور پھر انہیں اپنا تعارف کرواؤ۔ چنانچہ حضرت یوسف (علیہ السلام) ان سے استفسار کرتے ہیں۔ کیا تم جانتے ہو کہ تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا جب تم جاہل تھے ؟ انہوں نے اس کے جواب میں یہ عرض کی کہ کیا آپ ہی یوسف ہیں ؟ ارشاد فرمایا کہ میں ہی یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی بنیامین ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہم پر عظیم احسان فرمایا ہے۔ جو بھی اللہ تعالیٰ سے ڈر کر زندگی بسر کرے اور صبر کرتا رہے یقیناً اللہ تعالیٰ ایسے نیکوکاروں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائی، یوسف (علیہ السلام) کا حسن و جمال، اعلیٰ اخلاق، اپنے ساتھ مروّت اور میزبانی کا انداز، حکومت چلانے کا طریقہ، رعایا پروری اور ملک مصر کے ملحقہ علاقوں کے ساتھ بے لوث تعاون دیکھ چکے تھے۔ یقیناً احسان شناس لوگوں کی طرح اس نتیجے پر پہنچے ہوں گے کہ مصر کا بادشاہ کوئی عام انسان نہیں ہے۔ یقیناً یہ کسی عظیم خاندان کا فرزند اور منفرد انسان ہے۔ تیسری دفعہ ملاقات کی وجہ سے انہیں یہ بھی ادراک ہو چلا ہوگا کہ بادشاہ ہمارے ساتھ اس طرح ملتا ہے جس طرح خونی رشتہ رکھنے والا ملا کرتا ہے۔ قرائن اور جمال و کمال نے انہیں یوسف (علیہ السلام) کو پہچاننے کے بالکل قریب کردیا تھا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے سوال پر چونک اٹھے کیونکہ اب پہچاننے میں کوئی حجاب باقی نہ رہا۔ جس بنا پر وہ عرض کرتے ہیں کہ کیا آپ یوسف ہیں ؟ لیکن سوالیہ انداز میں عرض کرتے ہیں جس کی وجہ بادشاہ کا دبدبہ، احترام اور اپنی غلطیوں کا احساس ہوسکتا ہے۔ چنانچہ جھجکتے ہوئے سوال کرتے ہیں کہ کیا آپ یوسف ہیں؟ سیدنا یوسف (علیہ السلام) فرماتے ہیں ہاں میں ہی یوسف ہوں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے بنیامین کو بلا کر فرمایا یہ میرا بھائی ہے۔ یقیناً اس عروج و کمال میں ہمارا کوئی کمال اور دخل نہیں یہ محض اللہ تعالیٰ کا عظیم احسان ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر اس شخص پر ضرور کرم فرماتا ہے جو اللہ سے ڈر کر اس کی نافرمانیوں سے بچنے کی کوشش کرے اور اس کی فرمانبرداری کرتے ہوئے پریشانیوں پر صبر کرے۔ یقیناً ایسے صاحب کردار لوگوں کا اللہ تعالیٰ کبھی اجر ضائع نہیں کرتا۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ یوسف (علیہ السلام) نے انہیں کسی قسم کا طعنہ اور جھڑک دینے کی بجائے صرف یہ فرمایا کہ کیا تمہیں یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ اپنا سلوک یاد ہے ؟ جب تم جاہل تھے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے یہ لفظ بول کر ایک طرح ان کی شرمندگی کم کرنے کوشش کی کہ جو کچھ ہوا یہ جہالت کی وجہ سے ہوا جس میں یہ نقطہ سمجھایا کہ بھائیوں کے ساتھ زیادتی کرنا جہالت کا کام ہے جس سے بچنا چاہیے۔ مسائل: 1۔ یوسف (علیہ السلام) نے اپنے بھائیوں کو ان کی جہالت یاد کروائی۔ 2۔ اللہ تعالیٰ تقویٰ اختیار کرنے اور صبر کرنے والوں کی نیکی ضائع نہیں کرتا۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ محسنین کا اجر ضائع نہیں کرتا : 1۔ بے شک اللہ محسنین کا اجر ضائع نہیں کرتا۔ (یوسف :90) 2۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں کسی عمل کرنے والے کے عمل کو ضائع نہیں کروں گا۔ (آل عمران :195) 3۔ صبر کرو اللہ محسنین کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔ ( ھود :115) 4۔ ہم تمھارے گناہ مٹا دیں گے اور عنقریب ہم احسان کرنے والوں کو زیادہ عطا کریں گے۔ (البقرۃ:58) 5۔ احسان کرو یقیناً اللہ احسان کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ (البقرۃ:195) 6۔ انھیں معاف کیجیے اور در گزر کیجیے یقیناً اللہ محسنین کو پسند فرماتا ہے۔ (المائدۃ:13)