إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَمَاتُوا وَهُمْ كُفَّارٌ أُولَٰئِكَ عَلَيْهِمْ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ
یقیناً جو کفار اپنے کفر میں ہی مر جائیں، ان پر اللہ تعالیٰ کی، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے (١)۔
فہم القرآن : ( آیت 161 سے 162) ربط کلام : جن لوگوں نے حق قبول کرنے، اخفائے حق کے گناہ کو ترک کرنے اور حق کھول کر بیان کرنے سے انکار کیا پھر اسی حالت میں مر گئے ایسے مجرموں پر اللہ تعالیٰ اور سب کی طرف سے پھٹکار ہوگی اور حق چھپانے والے ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ یہودو نصارٰی کے علماء کی اکثریت کا یہ حال تھا کہ وہ دنیاوی مفادات کے حصول، علمی برتری اور ظاہری تقدس کے تحفظ کی خاطر کتاب الٰہی کو اپنے تک ہی محدود رکھتے تھے۔ جس طرح ہندو مذہب میں شودر کو مذہبی کتاب اور مندروں سے دور رکھا جاتا ہے۔ اہل کتاب کے علماء حکمرانوں اور بڑے لوگوں کے سامنے کلمۂ حق کہنے کے بجائے ان کی چاپلوسی اور مدح سرائی کیا کرتے تھے تاکہ ان سے بڑے بڑے مناصب اور مفادات حاصل کرسکیں۔ نبی معظم {ﷺ}نے ان کی اخلاقی پستی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے : (إِنَّ أَوَّلَ مَا دَخَلَ النَّقْصُ عَلٰی بَنِیْ إِسْرَاءِیْلَ کَان الرَّجُلُ یَلْقَی الرَّجُلَ فَیَقُوْلُ یَاھٰذَا اتَّقِ اللّٰہَ وَدَعْ مَا تَصْنَعُ فَإِنَّہٗ لَایَحِلُّ لَکَ ثُمَّ یَلْقَاہُ مِنَ الْغَدِ فَلَا یَمْنَعُہٗ ذٰلِکَ أَنْ یَکُوْنَ أَکِیْلَہٗ وَشَرِیْبَہٗ وَقَعِیْدَہٗ فَلَمَّا فَعَلُوْا ذٰلِکَ ضَرَبَ اللّٰہُ قُلُوْبَ بَعْضِھِمْ بِبَعْضٍ ثُمَّ قَالَ ﴿لُعِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ بَنِیْ إِسْرَآءِیْلَ عَلٰی لِسَانِ دَاوٗدَ وَعِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ﴾ إِلٰی قَوْلِہٖ ﴿فَاسِقُوْنَ﴾ ثُمَّ قَالَ کَلَّا وَاللّٰہِ لَتَأْمُرُنَّ بالْمَعْرُوْفِ وَلَتَنْھَوُنَّ عَنِ الْمُنْکَرِ وَلَتَأْخُذُنَّ عَلٰی یَدَیِ الظَّالِمِ وَلَتَأْطُرُنَّہٗ عَلَی الْحَقِّ أَطْرًا وَلَتَقْصُرُنَّہٗ عَلَی الْحَقِّ قَصْرًا) [ رواہ أبوداوٗد : کتاب الملاحم، باب الأمر والنھی] ” پہلی خرابی بنی اسرائیل میں یہ آئی تھی کہ ایک شخص دوسرے شخص سے ملتا اور اس سے کہتا اللہ سے ڈر اور اپنی حرکات سے باز آجا ؤیہ کام تیرے لیے درست نہیں ہے۔ جب دوسرے دن اس سے ملتا تو یہ کام اسے اس کے ساتھ کھانے پینے اور بیٹھنے سے نہ روکتا۔ جب انہوں نے ایسا کیا تو اللہ تعالیٰ نے انکے ایک دوسرے کے ساتھ دل ملا دیے۔ مزید فرمایا : بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر داوٗد اور عیسیٰ {علیہ السلام}کی زبان سے لعنت کی۔۔۔ پھر فرمایا : ہرگز نہیں‘ اللہ کی قسم! تم ضرور نیکی کا حکم دو اور برے کاموں سے منع کرو اور ظالم کے ہاتھ پکڑ کر اس کو حق کی طرف اس طرح جھکاؤ گے جیسا اسے جھکانے کا حق ہے اور اس کو حق پر ٹھہراؤ جیساکہ حق پر ٹھہرانے کا حق ہے۔“ نیکی قائم کرو جس طرح قائم کرنا چاہیے۔ اور حق پر اس کی مدد کرو جب جنّتی جنت میں جلوہ افروز ہوں گے تو ایک دن جہنم کے کنارے جاکر ایسے علماء سے پوچھیں گے کہ تم کس جرم کی پاداش میں یہاں ذلیل ہورہے ہو ؟ جہنمی اپنے بیٹوں، بیٹیوں، رشتے داروں اور مقتدیوں کے سامنے زارو قطار روتے ہوئے کہیں گے کہ ہم حق چھپایا کرتے تھے۔ جنّتی ترس کھانے کے بجائے ان کو کہیں گے کہ پھر تم پر رب ذوالجلال کی مزید پھٹکار ہونی چاہیے۔ اف! یہ کتنا ذلت آمیز اور ہیبت ناک منظرہو گا۔ انہیں ان خوفناک اور درد ناک سزاؤں میں نہ صرف ہمیشہ رہنا ہے بلکہ ان کی سزاؤں میں ذرہ برابر بھی تخفیف نہیں کی جائے گی۔ یہ مجبور ہو کر باربار جہنم کے نگران فرشتے سے آرزو کریں گے کہ ہمیں موت ہی آجائے جوابًا کہا جائیگا کہ اب تمہیں ہمیشہ یہاں ہی رہنا پڑے گا اور کوئی کسی اعتبار سے بھی تمہاری مدد نہیں کرسکے گا۔ ﴿وَنَادَوْا یٰمٰلِکُ لِیَقْضِ عَلَیْنَا رَبُّکَ قَالَ إِنَّکُمْ مَّاکِثُوْنَ﴾ [ الزخرف :77] ” اور جہنمی پکاریں گے کہ اے فرشتے تیرا رب ہمیں موت ہی دے دے وہ جواب دے گا یقیناً تم یہیں رہنے والے ہو۔“ رسول اللہ {ﷺ}نے فرمایا : (مَنْ سُئِلَ عَنْ عِلْمٍ فَکَتَمَہٗ اُلْجِمَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِلِجَامٍ مِنْ نَّارٍ) [ رواہ ابن ماجۃ: المقدمۃ، باب من سئل عن علم فکتمہ] ” جس سے کوئی مسئلہ پوچھا گیا لیکن اس نے اسے چھپا لیا ایسے عالم کو جہنم میں آگ کی لگام ڈالی جائے گی۔“ مسائل : 1۔ کفر کی حالت پر مرنے والوں پر اللہ تعالیٰ، اس کے ملائکہ اور سب کی لعنت ہوتی ہے۔ 2۔ حق چھپانے اور کفر پر مرنے والوں پر عذاب ہلکا نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی انہیں مہلت دی جائے گی۔ تفسیربالقرآن : ظالم کو مہلت میسر نہیں آئے گی : 1۔ نبی سے کیا جانے والا مطالبہ منظور ہونے کے بعد مہلت نہیں دی جاتی۔ (الانعام :8) 3۔ مرتدین کو مہلت نہ دی جائے گی۔ (آل عمران :88) 2۔ کتمانِ حق کرنے والوں کو عذاب سے مہلت نہ دی جائے گی۔ (البقرۃ:162) 4۔ ظالموں کو مہلت نہ دی جائے گی۔ (النحل :85)