فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا ۖ قَالَ كَبِيرُهُمْ أَلَمْ تَعْلَمُوا أَنَّ أَبَاكُمْ قَدْ أَخَذَ عَلَيْكُم مَّوْثِقًا مِّنَ اللَّهِ وَمِن قَبْلُ مَا فَرَّطتُمْ فِي يُوسُفَ ۖ فَلَنْ أَبْرَحَ الْأَرْضَ حَتَّىٰ يَأْذَنَ لِي أَبِي أَوْ يَحْكُمَ اللَّهُ لِي ۖ وَهُوَ خَيْرُ الْحَاكِمِينَ
جب یہ اس سے مایوس ہوگئے تو تنہائی میں بیٹھ کر مشورہ کرنے لگے (١) ان میں جو سب سے بڑا تھا اس نے کہا تمہیں معلوم نہیں کہ تمہارے والد نے تم سے اللہ کی قسم لے کر پختہ قول قرار لیا ہے اور اس سے پہلے یوسف کے بارے میں تم کوتاہی کرچکے ہو۔ پس میں تو اس سرزمین سے نہ ٹلوں گا جب تک کہ والد صاحب خود مجھے اجازت نہ دیں (٢) یا اللہ تعالیٰ میرے اس معاملے کا فیصلہ کر دے، وہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔
فہم القرآن : (آیت 80 سے 82) ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ برادران یوسف جب بنیامین کو رہا کروانے میں نا کام ہوئے تو علیحدہ ہو کر مشورہ کرنے لگے۔ نامعلوم برادران یوسف نے بنیامین کو رہا کروانے کے لیے کس قدر منت سماجت اور ترلے کیے ہوں گے۔ مگر بادشاہ نے ان کی کوئی بات تسلیم نہ کی۔ جب بادشاہ سے پوری طرح مایوس ہوگئے تو انہوں نے علیحدہ ہو کر آپس میں مشورہ کیا کر اب کیا کرنا چاہیے۔ بالآخر ان کا بڑا بھائی جس کا نام مؤرخین یہودہ بتلاتے ہیں کہنے لگا کیا تمہیں معلوم نہیں کہ تم سب سے والد صاحب نے قسمیں اٹھوا کر وعدہ لیا ہے کہ تم ہر صورت بنیامین کو اپنے ساتھ واپس لاؤ گے اور تمہیں یہ بھی معلوم ہے کہ تم اس سے پہلے یوسف کے ساتھ زیادتی کرچکے ہو۔ مجھے اس طرح واپس جاتے ہوئے حیا آتی ہے میں اپنے دکھی اور بوڑھے باپ کو کیا منہ دکھاؤں گا۔ لہٰذا تم جانا چاہتے ہو تو جاؤ۔ لیکن میں یہاں سے کبھی نہیں جاؤں گا۔ یہاں تک کہ والد گرامی مجھے پیغام بھیجیں یا اللہ تعالیٰ میرے لیے کوئی فیصلہ کر دے۔ وہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔ فیصلہ سے مراد بنیامین کی رہائی یا پھر مصر میں رہنا ہے۔ لہٰذا تم اپنے باپ کے پاس واپس جاؤ اور جاکر عرض کرنا ابا جان! آپ کے بیٹے نے چوری کا ارتکاب کیا اور ہم نے وہی گواہی دی جو کچھ ہمارے سامنے پیش آیا اور ہم غیب میں بنیامین کی حفاظت کرنے والے نہ تھے۔ بعض اہل لغت نے غیب سے مراد رات لی ہے کہ دن کے وقت تو ہم اکھٹے تھے لیکن جب بنیامین رات کے وقت ہم سے علیحدہ ہوا تو ہم نہیں جانتے کہ رات کے وقت اس نے چوری کرلی ہو اگر آپ کو ہماری باتوں پر یقین نہیں آرہا تو بستی کے اس قافلے والوں سے پوچھئے جن کے ساتھ ہم واپس آئے ہیں۔ یقین فرمائیں کہ ہم بالکل سچے ہیں۔ مسائل: 1۔ ہر صورت وعدہ کی پاسداری کرنی چاہیے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ سب سے بہتر فیصلہ فرمانے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ ہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے : 1۔ یا اللہ میرے حق میں فیصلہ فرمادے اللہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔ (یوسف :80) 2۔ سن لو ! اللہ کا ہی حکم چلتا ہے اور وہ جلد حساب لینے والا ہے۔ (الانعام :62) 3۔ بے شک تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔ (ھود :45) 4۔ وحی کی فرمانبرداری کرو اور صبر کرو کہ اللہ فیصلہ فرمادے اللہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔ (یونس :109)