سورة یوسف - آیت 73

قَالُوا تَاللَّهِ لَقَدْ عَلِمْتُم مَّا جِئْنَا لِنُفْسِدَ فِي الْأَرْضِ وَمَا كُنَّا سَارِقِينَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

انہوں نے کہا اللہ کی قسم! تم کو خوب علم ہے کہ ہم ملک میں فساد پھیلانے کے لئے نہیں آئے اور نہ ہم چور ہیں۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 73 سے 76) ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ قافلے والوں کا انتظامیہ کو جواب اور حلف۔ قافلے والے رک کر کہنے لگے کہ جناب آپ کو معلوم ہے کہ ہم چوری کرنے نہیں آئے۔ ہم تو بھوک کے مارے ہوئے اپنے وطن سے آپ کے ملک میں غلہ لینے کے لیے آئے ہیں۔ ہمارا چوری چکاری سے کیا تعلق۔ لیکن انتظامیہ کے لوگ تلاشی لینے کے سوا کسی دلیل کو نہیں مانتے۔ یہ بیچارے قسم پر قسم اٹھائے جا رہے ہیں کہ یقین کرو کہ ہم نے چوری نہیں کی۔ ہمارا خاندان ایسا ویسا نہیں ہے ہم تو انبیاء کی اولاد ہیں۔ نہ معلوم انہوں نے کس کس انداز سے پولیس افسر کو یقین دلانے کی کوشش کی ہوگی۔ بالآخر پولیس والے کہنے لگے کہ چلو یہ بتاؤ کہ اگر تم جھوٹے ثابت ہوئے تو تمہاری کیا سزا ہونی چاہیے ؟ کیونکہ انہیں یقین تھا کہ ہم نے پیالہ نہیں اٹھایا۔ لہٰذا ہم کس طرح چور ثابت ہوسکتے ہیں۔ اس لیے فوراً کہنے لگے۔ ہمارے علاقے کا قانون ہے کہ اگر چور سے چوری کا مال برآمد ہوجائے تو اس کو ایک سال کے لیے مال کے مالک کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ اگر ہم میں سے کسی کے پاس بادشاہ کا پیالہ نکل آئے تو ہم اسے آپ کے حوالے کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اس شرط پر قافلے والوں کی تلاشی شروع کردی گئی۔ لیکن حسب ہدایت سب پہلے دوسرے لوگوں کی تلاشی لی گئی۔ تاکہ اصل منصوبہ کے بارے میں کسی کو شک نہ پڑے۔ اس کے پیش نظر آخر میں بنیامین کے سامان کی تلاشی لی گئی۔ ان سے پیالہ برآمد ہوا۔ اللہ تعالیٰ اس تدبیر کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں کہ ہم نے یوسف (علیہ السلام) کے لیے یہ تدبیر کی تھی۔ یعنی اسے سکھلائی تھی۔ ورنہ یوسف بادشاہ کے بنائے ہوئے قانون کے مطابق بھائی کو اپنے پاس نہیں رکھ سکتا تھا۔ اللہ جو چاہے کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے مراتب میں بلند کرتا ہے۔ اور ایک علم والا ایسا ہے جو سب علم رکھنے والوں سے بڑھ کر علم رکھنے والا ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہم نے یوسف (علیہ السلام) کے لیے تدبیر کی۔ سوچنا یہ ہے کہ یہ تدبیر کونسی تھی۔ کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ اس سے مراد یوسف (علیہ السلام) کا بنیامین کے سامان میں پیالہ رکھنا ہے۔ دوسرے مکتبۂ فکر کا کہنا ہے کہ ” کدنا“ سے مراد وہ بات ہے جو تفتیش کے دوران یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں کے منہ سے نکلی تھی کہ اسرائیلی شریعت کے مطابق ہمارا یہ اصول ہے کہ چور کو ایک سال کے لیے مال کے مالک کے حوالے کردیا جائے۔ اسی بنیاد پر بنیامین کو یوسف (علیہ السلام) نے اپنے پاس رکھ لیا۔ جس کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے : ﴿فَوْقَ کُلِّ ذِیْ عِلْمٍ عَلِیْمٌ﴾) ” ایک ہستی ہر علم والے سے بڑھ کر علم رکھنے والی ہے۔“ دین کے معانی : دین اسلام اپنے کام اور نظام کے اعتبار سے کامل اور اکمل ہی نہیں بلکہ یہ تو اپنے نام کے دامن میں بھی پوری جامعیت اور دنیا وآخرت کے معاملات کا احاطہ کیے ہوئے ہے چنانچہ دین کا معنیٰ ہے (1) تابع دار ہونا (2) دوسرے کو اپنا تابع فرمان بنانا۔ (3) مکمل اخلاص اور یکسوئی کا اظہار کرنا۔ (4) قانون (5) مکمل ضابطۂ حیات (6) جزا وسزا اور قیامت کے دن کے لیے بھی لفظ دین بولا جاتا ہے۔ دین کی فرضیت : ﴿اَلْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دینَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیتُ لَکُمُ الْإِسْلَام دینًا [ المائدۃ:3] ” آج کے دن تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت کو پورا کردیا اور تمہارے لیے دین اسلام کو پسند کرلیا ہے۔“ ﴿ثُمَّ أَوْحَیْنَآ إِلَیْکَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّۃَ إِبْرَاہِیْمَ حَنِیْفًا وَّمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ [ النحل :123] ” پھر ہم نے آپ کی طرف وحی کی کہ یکسو رہنے والے ابراہیم کی ملت کی اتباع کیجئے اور وہ مشرک نہ تھے۔“ ﴿وَمَنْ یَبْتَغِ غَیْرَ الْإِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ وَہُوَ فِی الْآَخِرَۃِ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ [ آل عمران :85] ” اور جو اسلام کے سوا کوئی اور دین چاہے تو اس سے ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھائے گا۔“ مسائل: 1۔ صفائی پیش کرنے کے لیے قسم اٹھائی جا سکتی ہے۔ 2۔ شریعت اسرائیلی میں بھی چور کی سزا اسے غلام بنانا تھا۔ 3۔ یوسف (علیہ السلام) اپنے بھائی کو بادشاہ کے دین کے مطابق نہ رکھ سکتے تھے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہے بلند مرتبہ عطا فرماتا ہے۔ 5۔ ہر علم والے کے اوپر علم والا ہے۔ تفسیر بالقرآن : دین کا معنٰی : 1۔ یوسف کے لیے ممکن نہ تھا کہ بادشاہ کے قانون (دین) کے مطابق اپنے بھائی کو روک لیتے۔ (یوسف :76) 2۔ وہ مالک ہے قیامت (دین) کے دن کا۔ (الفاتحۃ:4) 3۔ کیا اللہ کے دین کے سوا وہ کوئی اور دین (الاسلام) تلاش کرتے ہیں۔ (آل عمران :83) 4۔ یہی مستقل (ضابطہ) دین ہے۔ (التوبۃ:36) 5۔ اس نے تمہارے لیے وہی طریقہ (دین) مقرر کیا ہے۔ (الشورٰی :13)