مَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِهِ إِلَّا أَسْمَاءً سَمَّيْتُمُوهَا أَنتُمْ وَآبَاؤُكُم مَّا أَنزَلَ اللَّهُ بِهَا مِن سُلْطَانٍ ۚ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ ۚ أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
اس کے سوا تم جن کی پوجا پاٹ کر رہے ہو وہ سب نام ہی نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے خود ہی گھڑ لئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی (١) فرمانروائی صرف اللہ تعالیٰ کی ہے، اس کا فرمان ہے کہ تم سب سوائے اس کے کسی اور کی عبادت نہ کرو، یہی دین درست ہے (٢) لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے (٣)۔
فہم القرآن : ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ عقیدۂ توحید اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک شرک کی نفی نہ کی جائے۔ اس لیے حضرت یوسف (علیہ السلام) توحید کے اثبات کے ساتھ شرک کی نفی کرنا ضروری خیال کرتے ہیں۔ مصر کے معاشرہ میں لوگ اپنے بڑوں کو رب کے لفظ سے پکارا کرتے تھے جیسا کہ اب بھی ہندوستان اور ایران میں ہزاروں شرک زدہ لوگ اپنے اپنے بزرگوں کو خداوند یا خدائیگان کہا کرتے ہیں۔ پاکستان میں مدفون بزرگوں، خاص کر حضرت علی ہجویری کو داتا اور بابا فرید آف پاکپتن کو فرید گنج، سندھ میں شہباز قلندر کو لجپال یعنی عزت دینے اور حفاظت کرنے والا کہتے ہیں۔ کسی نے وشنو، کسی نے برہما، کسی نے مہادیو، کسی نے ابو الہول، کسی نے تیان چینی، کسی نے غول بیابانی، کسی نے عارف عراق، کسی نے سلطان الہند، کسی نے ابدال شامی، کسی نے اوتاد مصری، غرض مختلف ملکوں میں ہر ایک شخص نے اپنے اپنے تعلق و محبت اور اپنے اپنے میلان طبع کی مناسبت سے خدائی اختیارات کسی نہ کسی کو دے رکھے ہیں۔ انہی کو اس آیت میں ﴿اَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ﴾ فرمایا گیا ہے۔ قیدی ساتھیوں کو توحید کا سبق پڑھاتے ہوئے حضرت یوسف (علیہ السلام) سمجھ گئے کہ اب یہ ذہنی طور پر اس مقام پر آکھڑے ہوئے ہیں کہ کھلے الفاظ کے ساتھ شرک کی نفی اور اس کے بنیادی اسباب کا ذکر کیا جائے۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ تم لوگ اللہ کے سوا جن کی عبادت کرتے ہو یہ تو تمہارے دماغ کی اختراع اور اپنی طرف سے تمہارے رکھے ہوئے نام ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے سوا کسی دوسرے کی عبادت کرنے اور ان کی تائید میں کوئی دلیل نازل نہیں کی ہے۔ توحید سمجھنا، اس پر ایمان لانا اور اس کے تقاضے پورے کرنا۔ دین کے باقی ارکان اس عقیدہ کے تقاضے ہیں۔ یہی اللہ تعالیٰ کا حکم اور اس کا دین ہے۔ جو ہمیشہ سے انھی اصولوں پر قائم ہے اور قیامت تک قائم رہے گا۔ لیکن اکثر لوگ اس حقیقت کو جاننے کی کوشش نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ بھی حکم ہے کہ صرف اسی ایک کی عبادت کرنے کے ساتھ تمام معبودان باطل کا انکار کیا جائے۔ اسی کا نام عقیدۂ توحید ہے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے دین قیم کے الفاظ استعمال فرما کر یہ بھی سمجھایا کہ اگر کسی کے پاس عقیدۂ توحید نہیں تو اس کے پاس کچھ بھی نہیں۔ بے شک وہ کتنا دیندار ہونے کے دعوے کرتا رہے۔ یہی عقیدہ مضبوط اور دین ہمیشہ رہنے والا ہے۔ (عَنْ وَّھْبِ ابْنِ مُنَبِّۃٍ قِیْلَ لَہٗ اَلَیْسَ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مِفْتَاحُ الْجَنَّۃِ قَالَ بَلٰی وَلٰکِنْ لَّیْسَ مِفْتَاحٌ اِلَّا وَلَہٗٓ اَسْنَانٌ فَاِنْ جِئْتَ بِمِفْتَاحٍ لَّہٗٓ اَسْنَانٌ فُتِحَ لَکَ)[ رواہ البخاری فی ترجمۃ الباب] ” حضرت وہب بن منبہ (رض) سے کسی نے یہ سوال کیا کیا لا الہ الا اللہ جنت کی چابی نہیں ہے؟ انہوں نے فرمایا کیوں نہیں؟ لیکن ہر چابی کے دندانے (پیچ) ہوا کرتے ہیں اگر تو پیچ دار چابی سے تالا کھولے گا تو کھل سکتا ہے (بصورت دیگر تیرے لیے دروازہ نہیں کھل سکتا۔) “ مسائل: 1۔ عبادت صرف ایک اللہ ہی کی کرنی چاہیے، باقی سب معبود ان باطل ہیں۔ 2۔ پوری کائنات میں صرف اللہ ہی کا حکم چلتا ہے۔ 3۔ دین اسلام سیدھا، سچا اور مضبوط دین ہے۔ 4۔ لوگوں کی اکثریت توحید کا علم نہیں رکھتی۔ تفسیر بالقرآن : صرف ایک اللہ کی ہی عبادت کرنا چاہیے : 1۔ صرف اللہ ہی کی عبادت کرو۔ (ھود :26) 2۔ اس اللہ کی عبادت کرو جو اکیلا ہے۔ ( الاعراف :70) 3۔ اللہ کا شکر ادا کرو اور خاص اس کی ہی عبادت کرو۔ (البقرۃ:172) 4۔ اللہ کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرو اور خاص اس کی ہی عبادت کرو۔ ( النحل :114) 5۔ اللہ نے آپ سے پہلے جتنے بھی رسول بھیجے ان کو یہی حکم دیا کہ ایک اللہ ہی کی عبادت کریں۔ ( الانبیاء :25) 6۔ اللہ نے ہر امت میں رسول بھیجے تاکہ لوگوں کو بتلائیں کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت کی عبادت سے بچو۔ (النحل :36)